افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4

بدھ 27 اکتوبر 2021

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

آذربائیجان،اس خطے میں آذری زبان بونے والوں کی اکثریت ہے ۔ آذری ترکی زبان کی ایک شاخ ہے ۔آذری اناطولیہ کی ترکی سے اتنی قریب ہے کہ نسیمی اور فضولی کا کلام، جو آزادی کے مشہور شاعر ہیں اناطولیہ کے ادبی حلقوں میں آج بھی دلچسی سے انہیں پڑھا جاتا ہے۔ آذربائیجان عہد قدیم سے ایران کا ایک حصہ رہا ہے۔ چھٹی قبل مسیح میں یہ ہنی منشی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔

شہنشاہ کردش نے درمند کے پاس وہ مشہور فیصل تعمیر کی تھی کو سد یا جوج ماجوج کے نام سے مشہور ہے۔ اور اُس زمانے میں ایران کی شمالی سرحد سمجھی جاتی تھی۔آذربائیجان بھی عربوں کے ابتدائی دور میں اسلامی اقتدار کے تحت ا ٓگیا تھا۔
پندرویں صدی کے آغاز میں شیعہ شاہ اسمٰیل صفوی نے صفوی خاندان کی بنیاد اسی خطے میں ڈالی۔

(جاری ہے)

عثمانیوں اور صفویوں کے درمیان یہ علاقہ متنازہ رہا۔

۱۶۱۸ء میں ترکی صفوی سلطنت کے درمیان ایک معاہدے کے تحت دریائے ارس کو ایران کو ایران کی شمالی حد قرار دیا گیا اور ایران کو اس خطے میں عدم مداخلت کا پابند بنایا گیا۔ یہ ہی روسی آذر بائیجان ہے۔ پھر اٹھارویں صدی میں زار روس کی سلطنت قائم ہوئی۔یہاں کے عوام نے عروج کے دور میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہاں کی آبادی ترکوں کی ہے۔روسیوں نے خلیفہ متقی باللہ ۹۴۱ء تا ۹۴۴ء کے زمانے بحیرہ خزر اوردریائے کورا کے راستے حملہ کیا تھا۔

ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا۔روسیوں نے دوسرا حملہ زار پیٹر اعظم ۱۶۸۹ء تا ۱۷۲۵ء کے دور میں کیا۔ یہ حملہ سمندر کے راستے کیا گیا۔ترکوں نے مقابلہ کیا۔روسیوں ے تیسرا حملہ کیتھران دوم کے زمانے میں کیا۔مگرملکہ کیتھران کی موت پر روسی واپس چلے گئے۔چوتھا حملہ آٹھ سال بعد کیا۔ یہاں کے حکمران جواد خان نے ڈٹ کو مقابلہ کیا۔ آذربائیجان کے لوگ آج بھی جواد خان کی بہادری کے گیت گاتے ہیں۔

روسیوں نے جواد خان کے قتل کر کے اس کی لاش کے ٹکڑت ٹکڑے کر دیا۔جامہ مسجد کو کلیسا میں تبدیل کر دیا۔روسیوں نے ۱۸۰۵ء اور ۱۸۲۸ء کے درمیان پورے آذربائیجان پر قبضہ کرلیا۔اشتراکی دور میں اس پر مکمل قبضہ برقرار رہا۔
 ترکستان،پہلی صدی ہجری میں اسلامی دنیا کا ایک حصہ بن چکا تھا۔ عربوں سے پہلے یہاں سامانیوں، سلجوقیوں اور خوارزم شاہی خاندان نے حکومت کی۔

پھر منگول اس پر قابض رہے۔ منگولوں کے بعد ڈیڑھ صدی تیموری خاندان ترکستان پر حکمران رہا۔ جب روسی فوجیں یہاں پہنچیں تو یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی دنیا تیزی سے زوال کی طرف جا رہی تھی۔روس نے مسلمانوں کے اختلافات کا پورا فاہدہ اُٹھایااور ترکستان پر قبضہ لر لیا۔ ترکستان میں زار روس کے زمانے میں گورنر مقرر کیے جاتے تھے۔روسیوں نے اصل باشندوں سے زمینیں چھین کر اپنے لوگوں میں بانٹ دیں۔

جودو سری ریاستوں میں پالیسی تھی یہاں بھی وہی اختیار کی گئی۔ اپنے فوجیوں کی بھی یہاں آباد کیا گیا۔ مقامی آبادی صحراؤں اور پہاڑوں میں جانے پر مجبور ہوگئی۔جب روس میں ۱۹۰۵ء میں آئینی انقلاب آیا تو روس کے دوسرے علاقوں کی طرح ترکستان میں بھی آئینی اور سیاسی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔۱۹۱۶ء میں مسلمانوں کے درمیان روسی کیمونسٹوں نے کام کرنا شروع کیا۔

مسلمانوں کے ترقی پسند عناصر کو جدیدی کہا جاتا تھا۔وہ سمجھتے تھے روسی کیمونسٹ ان کی نجات دہندہ ہیں۔پھر کیمونسٹوں نے ترکستان کنٹرول حاصل کر لیا۔
خیوہ وہی شہر ہے جو پہلے خورازم کہلاتا تھا۔ اسلامی دنیا کے عظیم ترین علمی اور تمدنی مرکزوں میں سے تھا۔اس کی بھی تاریخ ترکستان اور بخارہ کی سی ہے۔ مملکت عباسیہ کے زوال کے بعدبالعموم ترکستان میں قائم ہونے والی سلطنتوں کا ایک حصہ رہی ہے۔

یہاں کے عوام نے بھی اپنا علیحدہ وجود قائم رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ جہاں کے حکمران سلجوکی کہلاتے تھے۔پیٹراعظم نے ۱۷۱۷ء میں خیواہ فتح کرنے کے لیے فوج روانہ کی۔ساڑے تین ہزار روسی سپائیوں کو قتل کر دیا۔روس نے بائیس سال بعد ۱۹۳۹ء روس نے دوسری مہم بھیجی ۔ اس میں بھی روسیوں کو نقصان اُٹھانا پڑھا۔روسیوں نے ایک بار پھر ۱۸۵۳ء میں حملہ کیا۔

آخری بار روس نے ۱۸۷۳ء میں خیوہ پر تین اطراف سے حملہ کیا۔ ایک معاہدے کے تحت خیوہ زار روس کی باجگزار ریاست بن گئی۔ کیمونسٹ پارٹی کی تنظیم کی گئی۔اور معاہدوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ایک کیمونسٹ عطا مخدوم کو صدر بنا دیا گیا۔اس بعد کیمنونسٹوں نے خیوہ کو تقسیم کرے ترکمانستان میں ضم کر دیا۔
بخارہ ، اسلامی علوم فنون کے قدیم ترین مر کزوں میں سے ایک تھا۔

وسط ایشیا میں بخارہ کو بڑے مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔جب بخارہ کی ریاست روسیوں کی باجگزار بنی تو وہاں امیر مظفر الدین کی حکومت قائم تھی۔اس ے بعد بخارہ کے روس نواز حریت پسندوں نے ریاست کو عوامی جمہوریت کی شکل دی۔ جو صرف چار سال قائم رہی۔۱۹۲۴ء میں نقاب پوش سرپرستوں نے اس سلطنت کو روس کا ایک حصہ بنا دیا جس نے سویت یونین کے نام سے ایک نئے قسم کی سامراج کی بنیاد ڈالی۔

بخارہ کے حکمرانوں کی حیثیت زار روس کے کے نمایندوں کی سی تھی۔یہاں علماء کے سرکردگی میں عوام نے سخت مذاحمت کی۔بلآخر روسی شہر پر قابض ہو گئے۔ حملہ ااوروں نے شہر کو خوب لوٹا۔کئے مدارس بند کر دیئے گئے۔اسلامی کتب خانے کو آگ لگا دی۔نوجونوں نے عوامی سویٹ جمہوریت کا اعلان کر دیا۔ بعد میں بخارہ کو ازکستان ،تاکستان اورترکمانستان میں تقسیم کردیا۔

اس کو بھی باقی علاقوں کی طرح زبان، زمین اور انسانی حقوق سے محروم کر دیا۔ زارروس اور اشتراکی روس نے ان مسلم علاقوں کا لسانی اتحاد ختم کیاْ۔مختلف زبانوں میں بانٹ دیا، رسم الخط تبدیل کیا۔ان کی زمنیوں سے بیدخل کیا اوردور دارز برفانی علاقے سائے بیریا میں سزا کے طور پر دکھیل دیا۔ اکثریت کواقلیت میں تبدیل کیا۔مسلمان دانشوروں اورادیبوں کاقتل عام کیا۔


 عوامی شاعرعبدالمید چولپان بابر کے وطن فرغانہ کا باشندہ تھا۔اس قلمی نام چولپان جو کے معنی صبح کا ستارہ ہے، کوقتل کیا۔اس ادیب، افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اورشاعر کو۱۹۳۸ء میں روس کی خفیہ پولیس نے عوام دشمن ہونے کا الزام لگا کر پھانسی دے دی۔عبداللہ قادری بے شمار افسانوں،مزاحیہ اور طنزیہ خاکوں اور ادبی تنقیدوں مقالوں کے علاوہ تین اہم ناولوں کے مصنف تھا۔

عبدالرؤف فطر ت ترکستان کا ممتاز شاعر اور انشاپرداز بخارہ میں پیدا ہو اتھا۔ بخارہ میں اصلاح پسندوں کے خلاف کاروائی کی۔عبدلررؤف فطرت نے بخارہ کی کابینہ میں ویر تعلیم کی حیثیت سے کام کیا۔جب قوم پرستوں کے خلاف مہم میں کیمنونسٹوں نے اسے بھی پھانسی پر لٹکا دیا۔مقصودباتو بھی مشہور ازبک شاعر اور ادیب تھا۔یہ کیمونسٹوں کے ساتھ شریک بھی رہا ۔

پھر اسے بھی قوم پرستی کا الزام لگا اسے بھی منظر سے ہٹا دیا گیا۔منور قادری مصنف ہونے کے ساتھ ممتاز سیاست دان بھی تھا۔ترکستان کی سویٹ سوشلسٹ جمہوریہ میں وزیر تعلیم رہے۔۱۹۲۴ء م گرفتار کر لیے گئے۱۹۳۳ء میں قید خانے میں ہی شہید کر دیے گئے۔ منان رمز شاعر اورڈرامہ نگار تھے ۔ان کو بھی قومی جذبات کی وجہ سے پھانسی دے دی گئی۔مشرق یونس ایک ممتازترکستان شاعر تھے۔

تاشقند کے قریب پیدا ہوئے۔۱۹۳۴ء مین قوم پرستانہ سرگرمیوں کے وجہ سے گرفتار طہوئے۱۹۳۸ء میں قتل کر دیے گئے۔احمد بائے طورسون قازقستان کے شاعر اور ماہر لسانیات تھے۔طرغائی میں پیدا ہوئے روسی مدرسہ میں تعلیم پائی۔ معلم کا پیشہ اختیار کیا۔اخبار قازق نکالا۔ حکومت میں نائب صدر تھے۔قازقستان میں مختار سویٹ جمہوریت میں وزیر تعلیم تھے۔

ترکی رسم الخط کی تبدیلی میں تحریک میں آگے آگے تھے۔ عوامی کہانیاں اور ادبیات کی کتابیں ترتیب دیں تھیں۔۱۹۳۷ء میں اس کو روسی خفیہ پولیس نے گرفتار کیا اور قتل کر دیا۔جمعہ بے ایک قازق شاعر تھے۔تاشقند میں پیدا ہوئے۔ رسالا قازق میں کلام بھیجا کرتے تھے۔۱۹۲۰ء جب استنبول پر اتحادی فوجوں کا قبضہ ہوا تا اس پر غم میں ایک نظم لکھی۔ جس میں لکھا میرے بھائی ہم اِس کنارے ہیں اور آپ اُس کنارے ہو۔

ہم ایک دوسرے پرصرف خون کے آنسو بہا سکتے ہیں۔۱۹۳۷ء کی مارو مہم میں انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا۔میر یعقوب دولت قازق شاعر اور مصنف کو بھی مار دیا گیا۔ہادی اطلس تاتاری مورخ تھے۔سمبیر کے مقام پر پیدا ہوئے۔ قوم پرست مہم میں انہیں بھی گرفتار کیا گیا۔قید خانوں اور بے گار کیمپوں میں رہتے ہوئے ہی وفات پا گئے۔مجید غفوری بشکرد شاعر تھے۔

اوفا میں انتقال کیا۔مدرسہ رسولیہ میں تعلیم حاصل کی۔پہلی نظم” شاگرد“ یہیں لکھی۔ ۱۹۰۵ء میں مدرسہ محمدیہ میں داخل ہوئے۔۱۹۱۲ء میں پولیس نے پکٹر لیا۔ وطن سے محبت اور آزادی کے گیت لکھے۔
بکر صدقی چوبانزادہ،قراصوبازار آق مسجد میں پیدا ہوئے تھے۔ کریمایا جن مسلمان دانشوروں کو موت کی نیند میں سلایا گیا یہ بھی ان میں شامل تھے۔جمن کلی کریمیا کے ممتاز شاعر تھاکریمیا میں پیدا ہوئے تھے۔

شعر اور مضمون لکھتے تھے۔ اپنے کلام میں کسانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ان کو سویٹ رجحانات کی پیروی پر مجبور کر دیا گیا۔الطان مجید غنی زادہ آذر بائیجان کے ایک عظیم ماہر تعلیم اور ڈرامہ نویس تھا۔شماشی میں پیدا ہوئے۔ اصول جدید کی مدرسے میں تعلیم پائی۔کئی تصانیف کے مالک تھے۔۱۹۳۷ء میں مسلمان دانشوروں کے قتل عام میں خود کوبچا نہیں سکے۔

فریدون بے آذربائیجان کے ممتاز ادیب اور مور خ تھے۔شوشہ میں پیدا ہوئے۔۱۸۷۲ء میں مرزا کریم بخش منشی زادہ کے مکتب میں پڑھا۔۱۹۲۰ء میں کیمونسٹوں کے خلاف جنگ آزادی میں شہید ہوئے۔الصفہ آذری زبان کے ایک مقبول شاعر تھے۔ جنگ عظیم اوّل میں عثمانیوں کے حق میں تعریفی نظم لکھنے پر روسیوں نے گرفتار کیا بعد میں ان ک پتہ ہی چلا۔روسی اشتراکی جبر و ستم کا شکار ہونے والے دانشوروں کا یہ تذکرہ کسی طرح مکمل نہیں۔

ان میں کئی دانشوروں کا ذکر رہ گیا۔اشتراکیوں نے مسلمانوں کے مدرس جن سے ان علماء، دانشورں، ادبیوں شاعروں، مصنفوں نے تعلیم حاصل کی یکسر بند کر دیے۔اور مذہب کے خلاف لازمی تعلیم جاری کی۔
اسلام کو ختم کرنے اور کونسا طریقہ ہو سکتا تھا۔اکبر الہ آبادی نے کیا خو ب کہا تھا کہ:۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کی فرعون کوکالج کی نہ سوجی
سویٹ یونین نے وسط ایشاء کی مسلمان ریاستوں پر قبضہ کے بعد مسلمانوں کو مذب سے دور کیا۔ مگر وہ افغانستان پر قبضہ کرنے سے پہلے اپنے پٹھوحکمرانوں اور بعد میں افغانستان پر مکمل قبضہ کے باوجود کوشش کے کامیاب نہیں سکا۔ اسی وجہ سے افغانستان سویٹ یونین کا قبرستان بنا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :