جزیہ، ٹیکس یا غنڈہ ٹیکس

پیر 19 اپریل 2021

Mohammad Ahsan Qureshi

محمد احسن قریشی

کچھ دن قبل سندھ اربن گریجویٹ فورم  کے زیر اہتمام سیمینار میں شرکت کی اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہاجر  لیڈر  آفاق احمد  نے کہا کہ کراچی میں سرکار کی طرف سے ایمبولینس تک کی کوئی سہولت  نہیں  اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ مہاجر سے جزیہ لے رہا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مہاجر اور کراچی والے شاید جزیہ ہی دیتے ہیں  بلکہ جزیہ ادا کرنے پر تو آپ کو حقوق اور تحفظ ملتا ہے سو اس شہر بدنصیب کو تحفظ کیا ملنا تھا اس کے ہزاروں بیٹوں کو بغیر کسی جرم کے مقتل میں بھیج دیا گیا۔


 خیر اگر کراچی شہر جو دیتا ہے وہ ٹیکس ہوتا تو پاکستان کے مکمل بجٹ کا پینسٹھ سے ستر فیصد ٹیکس  اور سندھ کو پچانوے فیصد ٹیکس دینے والے اس شہر  کا یہ حال نہ کیا جاتا  کہ اس کے شہری فاضلہ ملا پانی پیتے اور وہ بھی خرید کے، ٹوٹی ہوئی  دھول،مٹی میں ڈوبی ہوئی سڑکوں  پر سفر کرنے کے سبب بیماری کے نرغے میں پھنستے اور تب بھی پیسے ادا کر کے نجی اسپتال سے علاج کروانے پر مجبور ہوتے، اس شہر کے بچوں کو پڑھنا ہوتا توسرکاری اسکول نہیں ملتے اگر کچھ کمزور عمارتیں ملتیں تو ان میں تعلیم نہیں دی جاتی، جوانوں کو یونیورسٹی جانا ہوتا تو وہ بھی نجی یونیورسٹی کا رخ نہ کرتے اور اپنے والدین کی کمائی  کا سب سے بڑا حصہ اس پر نہ لگاتے کیونکہ مہاجر اور کراچی کے بچوں کے والدین شاید غنڈہ ٹیکس دیتے ہیں اگر ریاست  کو شہری کی حیثیت سے ٹیکس دیتے تو ریاست ان کا پیسہ پر خرچ بھی کرتی اور ان کی اولاد کاداخلہ  سرکاری تعلیمی اداروں میں ممنوع نہ ہوتا عملے کا رویہ امتیازی نہ ہوتا، اس صدی میں کوٹہ سسٹم جیسا کالا قانون نہ ہوتا شہری کسی حادثے کا شکار ہوتا تو اسپتال جانے کے لیے سرکاری ایمبولینس ہوتی نہ کہ ایدھی کا رضاکار  ہوتا،  شاید کراچی کا شہری ہر روز سڑک پر حادثات کا شکار نہ ہوتا اگر  اس کے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نشان ہی ہوتا۔

(جاری ہے)


ان تمام مظالم اور استحصالی ہتھکنڈوں کے باوجود بھی کوئی انسان اپنا پیٹ کاٹ کر بچے کو تعلیم کا زیور پہنا تو دیتا اور بچے کے پاس تعلیم ہنر  اور قابلیت تو ہوتی ہے مگر تعصب کے سبب نوکری نہیں ملتی کیونکہ شہر  پر قابض قوتیں غیر مقامی  اور نسل پرست بھی ہیں اور ا ب تو یہ بات ہر زبان زد عام ہے کہ اس شہر میں حکام سے لے کر بھیکاری، چور سے لے کر پولیس  تک غیر مقامی ہے، کوٹہ سسٹم کے یہ شاہکار نہ صرف نکمے بلکہ انتہائی متعصب بھی ہیں جن کا کام رشوت کو اپنا حق سمجھ کر  مقامی لوگوں سے پیسے نچوڑنا  اور ان کی بیچ بازار اور خصوصی طور پر سرکاری دفاتر میں تزلیل کرنا ہے  نسل پرستی کا شکار یہ  حاکم مقامی لوگوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے بھی سرگرم عمل رہتے ہیں اور ایک شخص کے جرم کو جواز بنا کر شہر میں مقامی لوگوں کو سیاست سے اجتناب برتنے کا خاموش  پیغام نہ دیا جاتا۔


شاید یہ تمام باتیں تو آپ کو ایسا محسوس کرواتی ہونگی جیسا کہ کسی ملک پر کسی دوسرے ملک نے قبضہ کر رکھا ہو۔
اس سب مظالم کے بعد بھی مہاجر اور تمام کراچی ولے  فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پیسوں سے ان کا ملک چلتا ہے ، حکمرانوں کے بدن پر پہننے ہوئے کپڑے  کی خریداری اور دیگر شہروں کی سڑکوں تک کی تعمیر ان کے پیسوں سے ہوتی ہے مگر افسوس مزید سنگین  تب ہوتا ہے جب اس کے بدلے میں اس شہر کو ٹکے ٹکے کے لیے جھولی پھیلانا  پڑتی ہے لہذا اس شہر کے لوگ اگر اپنے شہر کا نظام اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں تو انہیں با اختیار بلدیاتی نظام دیا جائے  نہ کہ  بھیک کے طور پر چند ارب کا پیکج کا محض اعلان کیا جائے  حکمران وقت اور جمہوریت کے تقاضے کو سمجھیں  کراچی اور مہاجروں کو اتنا دیوار سے نہ لگائیں کہ دیوار ہی گر جائے۔


ویسے  یہ حقائق اگر کسی مہذب معاشرے کے کسی فرد کو بتائے جائیں تو وہ بھی یہ ہی کہنے پر مجبور ہوگا کہ اس شہر کے لوگ ٹیکس نہیں بلکہ غنڈہ ٹیکس دیتے ہیں۔
 قارئین! چلیں آپ ہی بتائیں کہ   کراچی والے کیا دیتے ہیں جزیہ، ٹیکس یا غنڈہ ٹیکس؟
خیر! میں تو اس کو غنڈہ ٹیکس نہیں کہوں گا کیونکہ میں مہاجر پاکستانی ہوں غدار پکارا دیا جاؤنگا اور ویسے بھی،
مشورہ ہے مجھے میرے احباب کا
ہونٹ سی لوں کے خطرہ میری جاں کو ہے (عاطف توقیر )
مگر حاکموں کو یاد رہے کہ
آئین زباں بندی زنداں پہ نہیں لاگو
 زنجیر سلامت ہے جھنکار سالمت ہے (عاطف توقیر)
 اور ہاں مہاجر خون ہے دوڑتا  رگوں میں تو یقین ہے کہ
اٹھائیں لاکھ دیواریں طلوع مہر تو ہوگا
یہ شب کہ پاسباں کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے۔

(جالب)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :