مادری لینگویج(Language)

اتوار 29 نومبر 2020

Moiz Ud Din Haider

معیزالدین حیدر

”تب تک کے لیے اجازت دیجئے ملتے ہیں آپ سے اگلے شو میں “۔ ٹیلی ویژن (Television)پر چلتا شو اب اختتام پزیر ہورہا ہوتا ہے،جہانگیر صاحب اٹھاتے ہیں ریموٹ اور جھٹکے سے ٹیلی ویژن بند کرکے ریموٹ پٹخ دیتے ہیں بغل والے سوفے پر اور ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے تھکی ہوئی آواز میں پکارتے ہیں ”ساجدہ چائے دینے کا ارادہ ہے یا نہیں ، شام کے چھ بجا دیئے ہیں تم نے “۔

کمرے کے باہر سے بیگم صاحبہ کی آواز آتی ہے”لا رہی ہوں حسن کے اباّ ،چولھے پر ہانڈی چڑھی تھی بس لاتی ہوں “۔ یہ وقت حسن کے ٹیوشن سے آنے کا وقت تھا ،یوں تو ابھی تک آہی جاتا تھا پر آج کچھ آدھا گھنٹہ مزید گزر چکا تھا۔جہانگیر صاحب کی ایک اور صدا بلند ہوتی ہے ”لے لو بھئی لے لو تم آدھا گھنٹہ اور لے لو ،حسن بھی ابھی تک نہیں آیا ہے میں اس کے ٹیوشن جا کر معلوم کر آوٴں “۔

(جاری ہے)

ساجدہ صاحبہ جواباََ کہتی ہیں ”ہاں سہی ہے، یہ آپ لائے حسن کو اور یہ آپ کو چائے ملی“۔دروازے کو دھڑام سے مار کر جہانگیر صاحب چل دیئے حسن کولینے۔
حسن کے ٹیوشن پہنچ کر تاخیر کا سبب معلوم کیا تو باجی سکینہ نے بتایا کے” آج حسن کو سبق یاد نہیں ہو رہا تھا اس وجہ سے کچھ تاخیر ہوگئی ،لیکن کوئی بات نہیں آپ حسن کو لے جائیں اور گھر پر سبق یاد کروا دیجئے گا“۔

پاپا حسن کو لے کر واپس گھر کی طرف چل دیئے ۔ حسن پہلی جماعت کا طالبِ علم تھا۔راستے میں اپنے پاپا سے کہتا ہے کہ”پاپا پاپامجھے چیز دلائیں پہلے پھر گھر جائیں گے“۔جہانگیر صاحب لے جاتے ہیں حسن کو گلی کے کونے والے جنرل اسٹور پر اور چیز دلانے لگتے ہیں۔وپس مڑتے ہیں تو بطّخوں کا جھنڈ وہاں سے گزر رہا ہوتا ہے ،جہانگیر صاحب حسن سے کہتے ہیں ”وہ دیکھو بیٹا کتنی پیاری بطخیں ہیں“۔

حسن غور سے اباّ کی شکل دیکھتا ہے جیسے اسے کچھ سمجھ نہ آیا ہو اور کہتا ہے” پاپا یہ بطخیں کیا ہوتی ہیں “اب پاپا حسن کی شکل غور سے دیکھتے ہیں ، پھربطخوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”بیٹا یہ جو سامنے ہیں روڈ پر انکو بطخ کہتے ہیں “۔ حسن معصومیت سے کہتا ہے”نو نو پاپا ڈکس (Ducks) ٹیچر نے کہا ہے اسے ڈک(Duck) کہتے ہیں“ ۔ جہانگیر صاحب اپنی پلکیں اچکاتے ہوئے اِدھر اْدھر دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں ” ہاں ہاں ڈکس ڈکس، چلو اب گھر چلو ماں ماں انتظار کر رہی ہونگی “۔


 گھر کی دھلیز پر پہنچ کر جہانگیر صاحب کھولتے ہیں چابی سے دروازہ اور حسن ان کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہو رہا ہوتا ہے کہ جہانگیر صاحب کہتے ہیں ”حسن بیٹا دروازہ پھیرتے ہوئے آنا “۔ یہ بولنے کی دیر تھی کہ حسن کی امّاں کی آواز آتی ہے ”دروازہ پھیر دو کیا ہوتا ہے؟!کلوز دا ڈور (Close the door) حسن اینڈ واش یور ہینڈز(And wash your hands)“۔
حسن کے اباّ اب نفی میں گردن کو ہلائے یہ کہتے ہوئے ”ہاں بھئی ہاں کلوز دا ڈور (Close the door) “ کہہ کر پیر پٹختے ہوئے کمرے میں داخل ہوجاتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :