سرکاری مدرس

جمعہ 8 جنوری 2021

Moiz Ud Din Haider

معیزالدین حیدر

زہیب کا داخلہ شہر کے بہترین اور قدیم کالجز میں سے ایک کالج میں ہوا تھا۔زہیب ایک ذہین لڑکا تھا اور میٹرک بھی اس نے اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا جب جاکر ہی زہیب کو اس کالج میں داخلہ ملا تھا۔کالج زہیب کے گھر سے کافی دور تھا اور آج زہیب کو پہلے روز کالج جانا تھا ۔زہیب خوش تھا کہ اسکا داخلہ ایک نامی گرامی سرکاری کالج میں ہوا ہے ۔

سویرے زہیب تیار ہوکر بس اسٹینڈ کی طرف چل دیتا ہے جو کہ اس کے گھر سے تھوڑا ہی دور تھا ۔ زہیب بس اسٹینڈ پر پہنچ کر کالج جانے والی بس کا انتظار کر رہا تھا کہ کچھ وقت گزرا اور بس آن پہنچی ۔ بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ زہیب گہرا سانس اندر سما کر خود کو بس میں ٹھونس لیتا ہے۔ اب بس چل دیتی ہے منزل مقصود کی جانب ۔ دیکھا جائے تو موٹر سائکل یا گاڑی میں یہ سفر ۱۵ سے ۲۰ منٹ میں طے کیا جاسکتا ہے لیکن بسیں جگہ جگہ رکتی ہوئی چلتی ہیں تو کچھ دیری ہو ہی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

بس نے زوہیب کو کوئی ۳۰ منٹ میں کالج کے سامنے اتار دیا ۔ زوہیب کالج میں داخل ہوا تو وہاں طلباء کا ھجوم تھا جو کہ لسٹ میں اپنا نام تلاش کرنے آئے ہوئے تھے اور زوہیب بھی اس ہی غرض سے کالج آیا تھا۔اتنا ھجوم دیکھ کر زوہیب کے ماتھے پر شکن آئے لیکن کچھ ہی دیر میں دور ہوگئے۔جب اسے ایک لڑکا ملا اور اس لڑکے سے بات چیت کے بعد معلوم ہواکہ وہ لڑکا بھی زوہیب کے علاقے میں رہائش پزیر ہے اور اس کا داخلہ بھی زوہیب کے ساتھ ہی ہوا ہے۔

یہ جا ن کر زوہیب کو ایک سے دوسراہٹ ہوئی اور زوہیب نے اس لڑکے سے دوستی بنانے میں زرا دیر نہ لگائی ۔ اب دونوں نے مل کر اپنے نام لسٹ میں تلاش لیے اور کلاسز کے اوقات کار معلوم کر کے ساتھ میں ہی گھر کے لیے روانہ ہوئے۔
واپس آتے ہوئے بس میں دونوں نے باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ ہم کالج ساتھ ہی آیا کریں گے۔اب یہ سلسلہ چل پڑا کہ ہفتہ ہی گزرا تھا کہ دونوں ساتھ میں کالج آتے اور جاتے۔

اب اگلے ہفتے سے دونوں کی کمپیوٹر کی کلاس کا آغاز تھا۔اگلے ہفتے کے پہلے دن حسبِ معمول صبح سویرے دونوں کالج کے لیے روانہ ہوئے اور ۲۵ سے ۳۰ منٹ کا سفر طے کر کے کالج پہنچ گئے۔کمرہ نمبر جس میں کمپیوٹر کی کلاس ہونی تھیں معلوم کیا اور وہاں جاکر بیٹھ گئے ۔ یہ کلاس خالی تھی نہ ہی کوئی اور طالبِ علم یہاں موجود تھا اور نہ ہی مدرس۔ کوئی ۱۵ منٹ انتظار کے بعد ایک درمیانے قد کا چت کبریٰ شخص ڈریس شرٹ اور پینٹ پہنے ہوئے کمرے میں داخل ہوا اور مدرس کی کرسی پر بیٹھ گیا۔

زوہیب اور اس کا دوست تعظیم میں کھڑے ہوگئے۔ معلوم ہوا یہی شخص مدرس ہے جو ان کو کمپیوٹر پڑھائے گا۔ زوہیب اور اسکا دوست کھڑے ہی تھے کہ مدرس نے اپنی نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا اور کہا:
” بس دو؟، صرف تم دونوں ہی ہو؟“۔
زہیب نے جواب دیا: ”جی سر“۔
مدرس نے کہا: ” میں تمہیں نہیں پڑھاوٴں گا!“۔
زوہیب اور اس کا دوست حیرانگی سے ایک دوسرے کی شکل تکنے لگے اور زوہیب کے دوست نے سوال کیا: ”لیکن کیو ں سر ؟ آپ ہمیں کیوں نہیں پڑھائیں گے؟“۔


مدرس نے تنک کے جواب دیا: ” کیوں کیا؟ میں اپنے گھر سے صرف دو بچوں کو پڑھانے نہیں آتا ہوں ، پہلے جاوٴ اور دوسرے بچوں کو بھی لے کر آوٴ کم از کم ۱۵ بچے ، جب پڑھاوٴں گا ورنہ نہیں“۔
زوہیب کے دوست نے کہا: ” سر ہم کیسے لائیں دوسرے بچوں کو ، ہم انھیں جانتے تھوڑی نا ہیں!“۔
مدرس نے جواب دیا: ” یہ کچھ مجھے نہیں معلوم یہ تمہارا مسئلہ ہے!“۔


اور یہ کہہ کر کمرہ چھوڑ کر اسٹاف روم میں چلا گیا۔
زوہیب اور اس کا دوست بھی منہ لٹکائے کمرے سے باہر آگئے اور واپس اپنے گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔ دوسرے طلباء کا غیر حاضر رہنا زوہیب اور اس کے دوست کی زمہ داری تو نہ تھی لیکن آج کے بعد دونوں دوستوں نے کبھی کمپیوٹر کی کلاس نہ لی کیونکہ اس کلاس میں کبھی ۱۵ بچے حاضر نہ ہوئے۔ ہاں پڑھانے کی ذمہ داری تو مدرس کی تھی ہی بھلے ایک ہی طالبِ علم کیوں نہ ہو ۔لیکن وہ مدرس اسٹاف روم میں بیٹھا صرف چائے اور سموسے کھاتا ہوا پایا گیا اور سرکار سے تنخواہ بھی اسے چائے اور سموسے کھانے کی ہی ملتی رہی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :