
خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کی ضرورت
منگل 17 فروری 2015

مولانا شفیع چترالی
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی قوموں کی برادری میں اس ملک کے تشخص کا تعین کرتی ہے۔ جس قوم کی قیادت بصیرت، بالغ نظری، پختہ کاری اور ہوش مندی کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو، اسے دنیا میں اپنی عزت ووقار، آزادی، خود مختاری کے تحفظ کا اول تو کوئی مسئلہ ہی نہیں رہتا اور اگر کہیں کوئی خطرہ، دشواری یا چیلنج درپیش ہو بھی جائے تو اس کی اولوالعزم قیادت اس سے نہ صرف بہتر طریقے سے نمٹ کر دکھاتی ہے، بلکہ مستقبل کے خطرات کے دیرپا سدباب کے لیے بھی ٹھوس اور موثر تدابیر کرتی ہے۔
(جاری ہے)
قیادت کے بحران کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کسی دور میں بھی متوازن، ملک وقوم کے حقیقی مفادات سے ہم آہنگ اور اعتدال ومعقولیت پر مبنی نہیں رہی ہے۔ سرد جنگ کے دوران ہمارے لیے مکمل طور پر غیر متعلق رہنا تو شاید ممکن نہیں تھا تاہم خود کسی ایک بلاک میں فٹ کرکے عالمی طاقتوں کی جنگ کا ایندھن بنانے کا ہمارا فیصلہ کہاں تک دانش مندانہ تھا؟ اس کا اندازہ ملک اور خطے کے تازہ منظر نامے سے بالکل واضح ہے۔ اس حقیقت سے دنیا کا ہر باشعور شخص واقف ہے کہ کسی بھی ملک کے داخلی حالات، امن وامان اور معیشت کا براہ راست تعلق اس کی خارجہ پالیسیوں سے ہوتا ہے۔ آج وطن عزیز پاکستان کو جن داخلی چیلنجوں بالخصوص دہشت گردی کے خونخوار عفریت کا سامنا ہے، اس کی سب سے اہم وجہ ملک کی خارجہ پالیسیاں ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی قومی پارلیمان ایک سے زاید بار یہ قرار داد منظور کرچکی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خارجہ پالیسی بالخصوص دہشت گردی کی امریکی جنگ میں تعاون کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران جتنے بڑے سانحات رونما ہوئے، ان میں سے بیشتر کا تعلق خطے میں انسداد دہشت گردی کے نام پر برپا اس جنگ سے بنتا ہے جس کو پاکستانی عوام کی غالب اکثریت اپنی جنگ نہیں سمجھتی۔
سانحہٴ پشاور کے بعد قومی ایکشن پلان کے تحت کیے جانے والے اقدامات کی افادیت یا نقصانات سے قطع نظر اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے کہ جب تک پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کو ملک کے حقیقی مفادات اور قوم کی امنگوں کے مطابق نہیں بنایا جاتا اور جب تک حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر خارجی دباؤ، مداخلت کا تاثر ختم نہیں ہوتا اور پاکستان پر غیروں کی غلامی کی چھاپ نہیں اتاری نہیں جاتی ، ملک کے اندر امن واستحکام کے امکانات زیادہ قوی نہیں رہیں گے۔ جہاں تک پاکستان کے معاشی واقتصادی لحاظ سے عالمی طاقتوں کے محتاج ہونے کا تعلق ہے تو اس کا سبب بھی بہت سے اہل نظر کے نزدیک غیروں کی دریوزہ گری کی ہمارے حکمرانوں کی مخصوص ذہنیت ہی ہے۔ اگر ہمیں اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے بھی جرأت مندانہ خارجہ پالیسیوں کی تشکیل ضروری ہے۔ اسی دنیا میں ایسے کئی ممالک موجود ہیں جو رقبے، آبادی، معیشت ، غرض ہر لحاظ سے ہم سے چھوٹے اور کمزور ہیں مگر وہ استعماری قوتوں کی دھونس دھمکی کو قبول نہیں کرتے اور اپنے محدود وسائل کے اندر رہ کر بھی عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں بھی قوموں کی برادری میں عزت وافتخار سے جینے کا قرینہ سیکھنا ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مولانا شفیع چترالی کے کالمز
-
”آزادی مارچ“۔۔امکانات اور خدشات
بدھ 18 ستمبر 2019
-
جرأت کا نام … حضرت مولانا سمیع الحق شہید
پیر 5 نومبر 2018
-
مستقبل کا ممکنہ سیاسی منظر نامہ
جمعرات 21 جون 2018
-
کوئی نسبت تو ہوئی رحمت عالم سے مجھے!
جمعہ 12 جنوری 2018
-
نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا رومانس اور لڑائی!
منگل 22 اگست 2017
-
یہ علامتیں ہیں ثبوت نہیں
بدھ 12 جولائی 2017
-
ایک روشن کردار
جمعہ 28 اپریل 2017
-
علماء کی سیاست… کل اور آج
جمعرات 30 مارچ 2017
مولانا شفیع چترالی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.