
بے بسی کا عالم
منگل 7 جولائی 2020

محمد حمزہ علی بھٹی
در اصل انسان سکون کی تلاش لیے پھرتا ہے اور اسی کی زد میں اسکی خودی کے سوا کچھ بھی اسکے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا خواں وہ اسکے خون کا رشتہ ہو یا منہ بھولا. اس وقت اس کے لیے سب سے اہم اور ضروری اسکی خودی دکھائی دیتی ہے.
(جاری ہے)
یہ سلسلہ کچھ اسطرح سے شروع ہوتا ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے دور ہوتا ہے کسی بندش کی بناء پر یا اپنی خودی میں اپنے آپ کو ان سے دور جان کر پھر وہ کچھ عرصہ تک خود میں زندگی بسر کرتا ہے اور کسی ایسے کا متلاشی ہو جاتا ہے جس کے ساتھ اپنے اندر چھپے ہر واقعات کو سنا کر ہمدردی پا کر سوالات کے جوابات پا کر خود کو سکون دلا سکے اور اس وقت اس کے لیے ہر وہ شخص اکے قریب ہوتا ہے جو اسکی بات سنے اور اس کے غم میں شامل ہو وہ شخص اسکے نزدیک کسی سکون سے کم نہیں ہوتا اور وہ اس کو ہی سکون مان لیتا ہے.
" میں جس درخت کے سائے میں جاتا ہوں وہ درخت ہی سوکھ جاتا ہے
میں جس شخص کو منانے جاتا ہوں وہ شخص ہی روٹھ جاتا "ہے
کچھ عرصہ کے بعد اس کو اس شخص میں وہ سکون نظر آنا کم پڑ جاتا ہے اور وہ اپنا رستہ بدل کر کسی اور سکون کا متلاشی بن جاتا ہے اسی طرح وہ مختلف رنگ کے پھول دیکھ کر اپنے مقصد کا پھول چنتا ہے جس کا رنگ اس کی ان تمام باتوں اور سوالات کی عکاسی کر سکے وہ مختلف رنگ کے لوگوں میں سے اس پھول کو اہمیت دیتا ہے اور اسی طرح کچھ عرصہ دلچسپی سے گزر جاتا ہے اور رنگ میں تبدیلی دکھائی دینے لگتی ہے اور معمول کے مطابق رنگ بدل کر اک دوسرا رخ اختیار کر لیتا ہے اور اس دوران اسکے لیے سب سے پسندیدہ عمل متلاشی بن جانا لگتا ہے چونکہ وہ یہ عمل قابلِ تعریف محسوس ہوتا ہے اسکی خودی میں.
رفتہ رفتہ وہ انسان پہلے سے بھی زیادہ اکیلا تصور کرتے ہوئے واپس آنے کی راہ ڈھونڈ رہا ہوتا ہے.
چونکہ وہ بہت سے رنگوں میں سے گزر کر کچھ رنگ خود میں اپنا کر لوٹنے کا ارادہ کرتا ہے.
پھر اک دن ایسا آتا ہے کہ وہ لمحات کو گن گن کر گزارنے لگتا ہے اور اپنے اندر چھپے ہر سوال اور باتیں اندر ہی بھولنے لگتا ہے اور اپنے اصلی رنگ میں واپس لوٹنے کے بعد ہی رستے تلاش کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنے وقت کو بتانے کے لیے طرح طرح کے عوامل کو اپناتا ہے اور دوسروں کی راہنمائی کی غرض سے جیتا ہے اسی دوران اک پل آن پھنچتا ہے کہ اس کے خود جیسے سے اس کا ٹکراؤ ہوتا ہے اور اس کو اس میں اپنا اصلی روپ دکھائی دیتا ہے اور وہ رفتہ رفتہ اسکے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور بل آخر اس سے اپنے اندر چھپے سوالات اور باتوں کو جان پاتا ہے اور اک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود سے بات کر رہا ہو.. اور اس موڑ پر جو مل جائے وہ زندگی بھر کے لیے سکون پا لیتا ہے اور اگر نہ ملے تو زندگی بھر سب کچھ بھول کر اس کو اپنے اندر سنبھال لیتا ہے جو نہ تو کوئی سوال ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی بات. بلکہ ان سوالات اور باتوں کا عالم ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ درد بھی خوشی سے سہ کر انسانی فطرت سے دور جا بستا ہے.
" اس دل میں بسائے عالم پھرتا ہوں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد حمزہ علی بھٹی کے کالمز
-
میرا ملک پاکستان
پیر 22 نومبر 2021
-
اپنی قسمت اپنے ہاتھ
بدھ 28 اپریل 2021
-
کالم نویس
پیر 4 جنوری 2021
-
میں عورت نہیں ہوں
جمعہ 11 ستمبر 2020
-
بے بسی کا عالم
منگل 7 جولائی 2020
-
سارے راستے قبرستان کی طرف جاتے ہیں
ہفتہ 28 مارچ 2020
-
بنت آدم
جمعہ 6 مارچ 2020
-
انسان اور انسانیت
بدھ 26 فروری 2020
محمد حمزہ علی بھٹی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.