1492ء کا نائن الیون!!

اتوار 5 جنوری 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کہانی کا آغاز 1490کی دہائی سے ہوتا ہے ۔1492پندرھویں صدی کا نائن الیون تھا اور اس کے اثرات 2001کے نائن الیون سے ذیادہ خطرناک تھے ۔1492کے نائن الیون کو سمجھنے کے لیئے آپ کو پندرھویں صدی کی عالمی سیاست کو سمجھنا ہو گا ۔یہ بات تو طے ہے کہ پندرھویں صدی تک ایشیا،افریقہ اور یورپ ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے اور یورپ ہم سے ہرگز آگے نہیں تھا ،امریکہ ابھی دریافت نہیں ہو اتھا اور چین اور جاپان کی ترقی تو ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے ۔مشرقی یورپ پر عثمانی ترکوں کا قبضہ تھا اور برصغیر لودھی خاندان کی اقتدار پرستی کا نشانہ بنا ہوا تھا ۔مغلوں کا جد امجد ظہیرالدین بابر ریاست فرغانہ کے مضافات میں زندگی کے نشانات ڈھونڈ رہا تھا ،اس کے جانی دشمن شیبانی خان نے اس کا جیناحرام کر رکھا تھا اور وہ جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور تھا۔

(جاری ہے)

مجموعی طور پر عالمی سیاست میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل تھا مگر پھر1492 کانائن الیون ہوا اور حالات یکسر بدل گئے ۔پندرھویں صدی کے آخر تک اسپین کے مسلم حکمران مکمل طور پر شکست کھا چکے تھے اور ابو عبداللہ ہسپانیہ سے نکل کر گمنام تاریخ کا حصہ بن چکا تھا ،اسپین کی فتح سے اہل یورپ کے حوصلے بلند ہو چکے تھے اور اور اب وہ کسی نئے معرکے کی تلاش میں تھے ۔ان دنوں یورپ ا ور ایشیا کے درمیاں رابطے کا واحد ذریعہ بحیرہء روم تھا اور یورپ کے تجارتی جہاز اسی راستے سے ہندوستان ،چین اور مشرق بعید آیا جایا کرتے تھے۔اگرچہ اسپین میں مسلم حکمرانوں کا زوال شروع ہو چکا تھا مگر بحیرہء روم کے ارد گرد عثمانی سلطنت پو رے آب و تاب سے قائم تھی اور عثمانی ترکوں کے جہاز بحیرہء روم میں پھریرے لہراتے پھرتے تھے ۔ایشیا اور یورپ کے درمیان واحد سمندری راستے پر ترکوں کا مکمل کنٹرول تھا اور انہوں نے اہل یورپ کو ایشیا سے دور رہنے پر مجبور کر رکھا تھا ،یہ صورتحال یورپی اقوام کے لیئے بڑی تکلیف دہ تھی کیوں کہ وہ ایشیا سے تجارت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے ،برصغیر کے مصالحوں کے بغیر ان کے کھانوں میں ذائقہ نہیں رہتا تھا اور ہندوستان کے سوتی اور چین کے ریشمی کپڑے کے بغیر ان کے بدن ننگے رہتے تھے ۔یہ وہ لمحہ تھا جب یورپی اقوام نے زندہ رہنے کے لیئے نئے راستے ڈھونڈنے شروع کیے ۔بحیرہء روم پر عثمانی ترکو ں کا قبضہ ان کے لیئے بہت بڑا چیلنج تھا اور وہ اس سمندری راستے کی بحالی کے لیئے ہر لمحہ بے چین رہتے تھے ۔ترکوں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں اور وہ مشرقی یورپ پر قابض ہونے کے بعد آہستہ آہستہ مغربی یورپ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔اگرچہ اہل یورپ اسپین سے مسلمانوں کو نکال کر بڑے خوش تھے مگر دوسری طرف ترکوں کے بڑھتے ہوئے اقدام نے ان کوپریشان کر رکھا تھا اور اب انہیں ایک نئے چیلنج کا سامنا تھا ۔اس نازک صورتحال میں اہل یورپ کے سامنے دو راستے تھے ۔ایک ،وہ ترکوں سے ٹکرا جائیں اور ان کو بحیرہء روم سے پیچھے دھکیل دیں ،دو،وہ میدان جنگ میں آکر دو بدو لڑنے کی بجائے کسی دوسرے آپشن پر غور کریں ۔اہل یورپ نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور ایشیا تک پہنچنے کے لیئے نئے سمندری راستوں کی تلاش شروع کر دی ۔یہ وہ لمحہ تھا جب یورپ کے تخلیق کاروں نے عالمی سیاست کے نقشے پر اپنی مرضی کا رنگ بھرنا شروع کر دیا تھا ،تخلیق کا ر کسی بھی معاشرے کے لیئے ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں اور کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار اس کے تخلیق کاروں کی تخلیقی صلاحیتوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔اب یورپ کے تخلیق کاروں نے اپنی توجہ نئے بحری جہازوں کی تیاری اور نئے سمندری راستوں کی تلاش پر مرکوز کر دی تھی ،نئی بحری مہم کے لیئے انہیں ایسے جہازوں کی ضرورت تھی جو کئی کئی ماہ مسلسل سفر میں رہ سکیں اور ایسے ماہرین سفر کی ضرورت تھی جو سمندری راستوں کی نشان دہی کر سکیں اور کھلے سمندر میں سمتوں کا تعین کر سکیں اس مقصد کے لیئے انہیں کچھ عرب ملاح میسر آگئے اور یوں ان کا م آسان سے آسان ہوتا چلا گیا۔کئی ماہ کی مسلسل تیاری کے بعد اہل یورپ قسمت آزمانے کے لیئے تیار کھڑے تھے ،اس مہم کا سب سے اہم جہاز راں واسکو ڈے گاما ہندوستان اور مشرق بعید تک پہنچنے کے لیئے نئے سمندری راستے کی تلاش میں نکلا اور بحیرہ ء روم سے اوپر اوپر بحر اوقیانوس سے ہوتا ہوا ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد ہندوستان کی بندر گا ہ کا لی کٹ پر جانکلا اور یوں یورپ کے دھانے پر بیٹھے عثمانی ترکوں کی شان وشوکت ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بحیرہء روم میں دفن ہو گئی،جس دن واسگو ڈے گاما نے کالی کٹ کی بندر گاہ پر قدم رکھا تھا اسی دن سلطنت عثمانیہ کے اقتدار کا سورج غروب اوراوقیانوسی طاقتوں کے عروج کا سورج طلوع ہونا شروع ہو گیا تھا ۔ اگرچہ اس لمبے سفر نے واسگوڈے گاما کی کمر توڑ دی تھی اور اس کے تین چوتھائی ساتھی راستے میں دم توڑ گئے تھے لیکن اس نے بحیرہء روم پر عثمانی ترکوں کے قبضے کو غیر موئثر کر کے اہل یورپ کی ترقی کے لیئے نئے راستے کھول دیئے تھے ،ترکوں نے بحیرہء روم پر قبضہ کر کے بحری روڈ بلاک کی جو منصوبہ بندی کی تھی واسگو ڈے گاما نے اسے پاش پاش کر دیا تھا
اب صورتحال یہ تھی کہ سولہویں اور سترھویں صدی تک اہل یورپ نے ایرانی ،عربی ،ترکی اور ہندوستانی معاشرے کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور جب یورپ زندہ رہنے کے لئیے نئے بحری راستوں کی تلاش میں تھا ہمارے آباوٴاجداد آپس کی خانہ جنگیوں میں مصروف تھے ،انہیں یقین ہی نہیں تھا کہ سات سمندر پار سے کوئی مخلوق ان پر حملہ کر سکتی ہے ۔1768میں جب رومیوں اور عثمانیوں کے درمیان جنگ ہوئی اور خلیفہ کو بتایا گیا کہ روس ایک ایسی طاقت جنگ میں جھونکنے والا ہے جو بالٹک میں تعمیر ہو ئی ہے تو خلیفہ نے اس بات پر یقین کر نے سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ وہ یہ بات ماننے کے لیئے تیا ر نہیں تھا کہ بالٹک سے بحیرہء روم کے درمیان بھی کو ئی بحری راستہ موجود ہے ۔1798میں جب ایک یورپی تاجر نے مراد بیگ کو یہ خبر دی تھی کہ نپولین جزیرہء مالٹا پر قبضہ کرنے کے بعد مصر کا رخ کرنے والا ہے تو اس نے قہقہہ لگا کر کہا تھا ”یہ کیسے ہو سکتا ہے “اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ایسا ہو گیا ۔
یہ وہ لمحات تھے جنہیں یورپ کے تخلیق کا روں نے کیچ کر لیا تھا اور وہ ہم سے آگے نکل گئے تھے ۔آج پانچ سو سال بعد ہم اہل یورپ کی جگہ پر کھڑے ہیں مگر ہمار االمیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ تخلیق کا ر نہیں جو قوم کو آگے نکلنے کا راستہ دکھا سکیں ،ہمارے حصے میں جو بھی تخلیق کا ر یا لیڈر آیا اس نے ہمیں نیا راستہ دکھانے کی بجائے مغرب کی تقلید پر لگا دیا یہ جانے بغیر کہ تقلید کرنے والا ہمیشہ اس سے پیچھے رہتا ہے جس کی تقلید کی جاتی ہے خواہ وہ ایک قدم ہی پیچھے کیوں نا ہو،کسی نے ہمیں مغربی تہذیب و تمدن اپنانے کا درس دیا اور کوئی ہمیں انگریزی زبان سیکھنے کے پیچھے لگا گیا ۔ماضی کو چھوڑیے ہماری موجودہ صورتحال ماضی سے بھی ذیادہ پتلی ہے ،اول تو ہمارے ہاں کوئی تخلیق کا ر ملتاہی نہیں کیوں کہ تخلیق کا ر ایک خاص ماحول میں پیدا ہو تا ہے اور ہمارے ہاں وہ ماحول بنا ہی نہیں یا بننے ہی نہیں دیا گیا اور اگر بیس کروڑ آبادی میں کوئی تخلیق کا ر ہے بھی تو اس کی سوچ اور فکر کے زاویئے مختلف ہیں ۔ہمیں آج بھی ہوش نہیں آیا اور ہماری ترجیحات آج بھی مختلف ہیں ۔ہمارا حکمران اقتدار پرست،ہمارا سیاست دان جھوٹا ،ہمارا استاد کرپٹ،ہمار اشاعررخ یار اور زلف یار کا اسیر،ہمارا مذہبی سکالر تنگ نظر ،ہمارا نوجوان عیاش اور ہمارا فلسفی فضول بحثوں میں الجھا ہو اہے ۔ہمارے کالج اور یونیورسٹیاں تفریح گا ہ اور ہمارے مذہبی ادارے محدود ہو کر رہ گئے ہیں ۔تو ایسی صورتحال میں بھلا چینج کہاں سے آئے گا اورتبدیلی کہاں سے آئے گی ،سو اے اہل وطن ابھی انتظار کریں کیوں کہ زوال کی رات ابھی تاریک ہے اور سحر کا دور دور تک کوئی نشان دکھا ئی نہیں دیتا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :