
دس سالہ بزرگ !!
پیر 21 اپریل 2014

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
میں نے محسوس کیا بچے کے والد کو میری بات سمجھ آ رہی تھی میں نے بات آگے بڑھائی ”بچے کے والد جس نئی جگہ شفٹ ہو ئے تھے وہا ں ایک اونچا ٹیلا تھا جہاں سے جھیل ہیوران اور دریائے سینٹ صاف دکھا ئی دیتا تھا اور اس ٹیلے پر کھڑے ہو کر ان کانظارہ اور بھی دلکش دکھا ئی دیتا تھا ،بچے کے والد نے اس ٹیلے پر ایک مینار بنا دیا تھا تاکہ لو گ اس مینا ر پر چڑھ کر اس جھیل اور دریا کا نظارہ کر سکیں اور وہ ان سے اس کا تھو ڑا سا معاوضہ لیتا تھا لیکن جب بھی کو ئی سیاح اس مینا ر پر چڑھنے کے لیئے آتا مینا ر پہلے سے بک ہو تا تھا کیوں کہ وہ بچہ خود ہی بار بار اس مینا رپر چڑھتا اور کسی اور کو موقعہ ہی نہیں دیتا تھا اور ایک عرصے تک مینار کا ”گا ہک “یہی اکیلا بچہ تھا اور اس کے باپ کو اس مینا رسے کوئی خاص مالی فائدہ نہ ہوا ۔اس بچے نے اپنے گھر کا تہہ خانہ اپنے نام کیا ہوا تھا اور وہ تہہ خانے میں اور کسی کو نہیں جانے دیتا تھا ،اس تہہ خانے میں اس نے بوتلیں ،مرتبان ،کیمیائی دوائیں ،کئی قسم کے کیڑے مکوڑے اور زہریلی دوائیں جمع کر رکھی تھیں اور وہ تہہ خانے میں کسی کو نہیں جانے دیتا تھا “
اس سا رے واقعے کے بعد میں نے دوبار ہ بچے کے وا لد سے پوچھا ”آپ جانتے ہیں یہ بچہ کو ن تھا “انہوں نے دوبارہ نہیں میں گردن ہلا دی تو میں نے انہیں بتایا ”یہ بچہ تھامس ایلوا ایڈیسن تھا ،دنیا کا سب سے بڑا مو جد۔بلب ،ٹیلی فون کے رسیور ،برقی قلم ،پیرافین کا غذ ،بجلی سے روشنی ،ووٹ گننے والی مشین ،ٹی وی کی ابتدائی شکل اور آواز ریکارڈ کرنے والے آلے کا موجد۔اس نے اپنی زندگی میں ہزاروں چیزیں ایجاد کیں اور انسانی تاریخ کا سب سے بڑا موجد کہلایا ،اس کے دوستوں اور دشمنوں نے اسے ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ ہر بار کامیاب ہوتا رہا ،صرف بلب کی ایجا د کے حقوق اپنے نام محفوظ کروانے کے لیئے اسے چودہ سال تک مقدمہ لڑنا پڑا ،پورے دس سال تک امریکی میڈیا اس کی ناکامی کی خبریں چھاپتا رہا مگر وہ مستقل مزاجی سے اپنے کام میں مگن رہا ۔ اسے امریکی تاریخ میں سب سے ذیادہ اعزازات سے نوازا گیا ،اسے بنی نوع انسان کا محسن قرار دیا گیا ،اٹلی ،جرمنی اور فرانس نے اسے خصوصی اعزازات سے نوازا اور آج بھی جب سائنس کے اسٹوڈنٹس کے سامنے ”تھامس ایلوا ایڈیسن “کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے سر ادب سے جھک جاتے ہیں۔“میں نے محسو س کیا بچے کے والد کو ساری بات سمجھ آگئی تھی اور اب وہ اجازت چا ہ رہے تھے ،میں نے آخری جملہ کہا ”یار دیکھ لو اب تم پر منحصر ہے کہ تم دس سالہ بچے کو” بزرگ“ بنانا چاہتے ہو یااس کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھتے دیکھنا چاہتے ہو “انہوں نے ایک معنٰی خیز مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور اپنی ندامت کو چھپاتے ہو ئے رخصت ہو گئے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.