
غریب باپ کا بیٹا !
اتوار 31 جولائی 2016

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
ان کی اتنی ” متاثر کن “ گفتگو کے باوجود میں کافر ہی رہا اور عرض کیا ” ہمارے معاشرے میں دو طرح کے کامیاب لوگ پائے جاتے ہیں ، ایک وہ جنہیں کامیابی ورثے میں ملتی ہے اور انہیں خود سے کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی ، یہ کامیابی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ یہ خوش قسمتی ہوتی ہے ، دوسرے وہ لوگ جو اپنی محنت سے کامیاب اور ” بڑے “ لوگ بن جاتے ہیں ، قدرت جب کسی انسان کو حقیقت میں کامیاب اوربڑا بنانا چاہتی ہے تو پہلے اسے خود مسائل کی چھننی میں سے گزارتی ہے ، بار بار اس کے عزم اور حوصلے کو آزماتی ہے اوربڑا بننے کے بعد بھی مسلسل اس کی نگرانی کرتی اور اس کا امتحا ن لیتی رہتی ہے ،لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس امتحان میں پاس ہو ں اور جو امتحان میں پا س نہ ہوں قدرت انہیں واپس اپنے اصل کی طرف لوٹا دیتی ہے اور خاکم بدہن آپ کامیاب لوگوں کی اسی دوسری کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں ۔ “ میں نے بات ختم کی تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو چکا تھا ، میں ان کے دفترمیں بیٹھ کر انہیں آئینہ دکھا رہا تھا ،انہوں نے پہلو بدلا ،ٹھنڈے پا نی کا گھونٹ بھرا اور مجھ سے تفصیل چاہی میں نے عرض کیا” جناب ابھی چند دن پہلے عید گزری ہے ، آپ مجھے بتائیں آپ نے عید سے پہلے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دیں ؟ آپ نے انہیں عیدی یا سالانہ بونس دیا؟ آپ اپنے ملازمین سے عید ملے اور اپنے ملازمین کے ساتھ عید گزرای، آپ کو تو شاید یہ بھی علم نہیں ہو گا کہ آپ کے ادارے کے کتنے ملازمین صرف اس وجہ سے گھر نہیں جا سکے کہ انہیں تنخواہیں نہیں دی گئیں ، آپ کو یاد ہے رمضان میں آپ کے ایک ملازم کی وفات ہو گئی تھی اور وہ آپ کے ہمسائے بھی تھے آپ نے اس کے جنازے میں شرکت کی ، رمضان سے پہلے ایک ورکر کی والدہ ہسپتال میں تھیں جس کی وجہ سے وہ ایک ہفتہ ڈیوٹی پر نہیں آ سکا تھا آپ نے اس ایک ہفتے کی بھی کٹوتی کی تھی اور آپ کے ادارے میں لوگ دس دس سال سے کام کر رہے ہیں لیکن آج تک آپ نے ان کی تنخواہیں نہیں بڑھائیں ، آپ کام آج کے دور کے مطابق لے رہے ہیں اور انہیں تنخواہیں دس سال پہلے کی دے رہے ہیں ، سر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ اپنی ناک تلے یہ سب ہوتا دیکھ رہے ہیں اور اس کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ آپ ایک غریب باپ کے بیٹے ہیں ،شاید آپ کو یہ بات جچتی نہیں ، اگر آپ غریب باپ کے بیٹے ہوتے تو آپ کو غریبوں کے دکھ اور تکالیف کا احساس ہوتا ، آپ اپنے ورکرز کو عید سے دس دن پہلے تنخواہیں دے چکے ہوتے ، اگر آپ غریب باپ کے بیٹے ہوتے تو اپنے ملازمین کو ایک تنخواہ بونس دیتے ، ان کے ساتھ عید مناتے ، اس غریب بیٹے کی تنخواہ میں کٹوتی نہ کرتے جو ایک ہفتہ اپنی ماں کی عیادت کی وجہ سے ڈیوٹی پر نہ آ سکا ۔ اگر آپ غریب باپ کے بیٹے ہوتے تو اپنے بوڑھے ورکرز کو ایڈوانس دے کر ان کی بیٹیوں کے ہاتھ رنگ دیتے اور اگر آپ غریب باپ کے بیٹے ہوتے تو پچھلے ہفتے اپنے بچوں سمیت خودکشی کرنے والے ملازم کی زندگی بچالیتے“ ۔ میری گفتگو تلخ ہوتی جارہی تھی اور میرے سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ، میں اٹھا، ہاتھ آگے بڑھایا اور یہ سوچتے ہوئے آفس سے باہر نکل آیا کہ اگر ایک غریب باپ کے بیٹے کا یہ حال ہے تو پھر ہمیں اپنے ارپ بتی سیاستدانوں سے کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.