آپ یونیورسٹیاں بند کردیں !

پیر 3 اپریل 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

23مارچ 2017کے دن جو کچھ ہوا اس کے بعد میں با ہوش و حواس حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ ملک کی تمام یونیورسٹیاں بند کردیں ،آپ ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو تالے لگادیں اور ہر یونیورسٹی کے باہر لکھ کر لگادیں کہ یہاں انسانیت مر چکی ہے اور تہذیب نے خود کشی کر لی ہے ۔ میں یہ مطالبہ کیوں کر رہاہوں آپ تھوڑا سا ساتھ دیں امید ہے کہ آگے چل کر آ پ بھی میرے ساتھ اس مطالبے میں شریک ہوجائیں گے ۔

23مارچ 2017کے دن اس وقت جب پورا پاکستان قرارداد پاکستان کی تقریبات منا رہا تھا ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں تہذیب، تحقیق، تخلیق، علم ، شعور ، آگہی اور کردار سازی کا جنازہ پڑھایا جا رہا تھا ۔ انسانیت مر چکی تھی ، تہذیب منہ چھپا کر جنگلوں کی طرف نکل گئی تھی ،ریسرچ اور تحقیق نے یونیورسٹی کے ساتھ بہنے والی نہر میں چھلانگ لگا دی تھی ، علم اور شعور سڑک پر لیٹ کر ماتم کر رہے تھے اور کر دار سازی نے خود کشی کر لی تھی ۔

(جاری ہے)

یونیورسٹی کے دوگروہوں میں کسی بات پر اختلاف ہوااور پھر یہ اختلاف جنگ کی صورت اختیار کر گیا اور یونیورسٹی میدان جنگ بن گئی۔ دونوں طرف سے لاتوں ، گھونسوں اور لاٹھیوں کا بے دریغ استعمال ہوا ،لاٹھی بردار جھتے ہر طرف پھیل گئے ، جس کو جتنا موقع ملا اس نے فریق مخالف پر ہاتھ صاف کیے ،اگر کوئی خاتون سامنے آئی تو اسے بھی معاف نہ کیا گیا اور اگر کسی سر پھرے نے بیچ میں آکر انسانیت کا نعرہ بلند کیا تو وہ بھی حیوانیت کا شکار ہو گیا ۔

علم وفن اور شعور و آگہی کا مرکز جہالت کا اکھاڑا بن گیا ، حیوانوں نے دیکھا تو کانوں کو ہاتھ لگا لیے، اڑتے ہوئے پرندے ادھر سے گزرے تو سہم کر راستہ بدل لیا، شیر خوار ڈر کر ماوٴں کے کلیجے سے چمٹ گئے، انسانیت کی روح آسمان کی طرف پرواز کر گئی ، تہذیب نے بھاگ کر جان بچائی اور شعور و آگہی نے انسانوں کے ہاتھوں مرنے کی بجائے خود کشی میں عافیت جانی۔

آپ یوٹیوب یا فیس بک پر جائیں اور آپ اس دن کی وڈیوز دیکھیں آپ لرز اٹھیں گے، آپ کا جسم کانپ اٹھے گااور آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم محسوس ہو گی۔
قطع نظر اس کے کہ ان دونوں گروہوں کا تعلق کس جماعت،کس نسل ، کس صوبے اور کس قبیلے سے تھا اور ان میں سے کو ن صحیح اور کون غلط تھا میراسوال یہ ہے کہ کیا یونیورسٹی سطح کے اسٹوڈنٹس میں اتنا بھی شعور نہیں تھا کہ وہ اس طرح ایک دوسرے کے سر پھاڑیں ، گالم گلوچ کریں اور مخالف گروہ کے ہاتھ ، پاوٴں اور ٹانگیں توڑ دیں ؟کیا یونیورسٹی سطح کے اسٹوڈنٹس کو اتنا بھی شعور نہیں کہ و ہ اگر کسی سے اختلاف کریں تو اس میں بھی دلیل ، تہذیب اور شائستگی کا پہلو مد نظر رکھتے ۔

اسکول یا کالج کے اسٹوڈنٹس یہ حرکت کرتے تو اس میں کوئی تاویل کی جا سکتی تھی لیکن ہماری یونیورسٹیوں کے طلباء میں اتنا شعور اور پختگی نہیں میں اس بات پر حیران ہوں اور میرا ذہن کسی تاویل کو قبول نہیں کر رہا ۔ یونیورسٹی ہائیر ایجوکیشن کا مرکز ہوتی ہے اورکسی بھی شعبے کی اعلیٰ قیادت انہی یونیورسٹیوں سے نکل کر سامنے آتی ہے ۔آج تحقیق اور تخلیق کا ری کا سارا عمل سمٹ کر یو نیورسٹیوں میں چلا گیا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں تحقیق اور تخلیق کاری کی بجائے جہالت کا اکھاڑا اور میدان جنگ بن کر رہ گئی ہیں ۔

انسانی تاریخ میں قومو ں اور ملکوں پر حکمرانی کرنے والے افراد اور قیادت انہی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر سامنے آئی اور آج بھی دنیا کے نامور لیڈر، حکمران ، سائنسدان ، موجد، ادیب اور دانشور کسی نہ کسی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں لیکن ہماری یونیورسٹیاں کیا کر رہی ہیں جب دیکھتا ہوں تو میرا دل ڈوب جاتا ہے ۔اس وقت دنیا ترقی کی جس معراج پر کھڑی ہے اس کا سارا کریڈٹ یونیورسٹیوں کو جاتا ، آپ دیکھ لیں پچھلی دو صدیوں میں جتنے بھی نامور سائنسدان ، موجد ، دانشوریا ادیب پیدا ہوئے ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی یونیورسٹی سے ضرور تھا ۔

صرف ہارورڈ یونیورسٹی میں ایسے پچھتر افراد زیر تعلیم رہے ہیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں نوبل پرائز حاصل کیا ۔ آج بھی دنیا میں جتنی ریسرچ ہو رہی ہے اس کا تعلق کسی نہ کسی یونیورسٹی سے ہوتا ہے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں اور ہماری یونیورسٹیاں کتنی ریسرچ کر رہی ہیں آپ کے سامنے ہے۔میں جب بھی کسی دورے شہر جاتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ اس شہر میں کوئی یونیورسٹی یا اس کا کوئی کیمپس ہو تو اس کو ضرور وزٹ کر وں ۔

میں وہاں کے اسٹوڈنٹس سے ملتا ہوں اور ان سے ان کا سبجیکٹ ، ریسرچ ٹاپک اور وہ لائبریری میں کتنا وقت دیتے ہیں ضرور پوچھتا ہوں ۔ پچھلے دنوں ایک دوست تعلیمی پراجیکٹ کے تحت جرمنی گئے ہوئے تھے واپسی پر میں نے پوچھا کہ وہاں کی کوئی خاص بات جو آپ نے نوٹ کی ہو ، تو بتانے لگے کہ ہمارے میزبان نے جرمنی کی ایک معرف یونیورسٹی کے وزٹ کے لیے اتوار کا دن رکھا تھا ہم بہت اداس ہوئے کہ اتوار کو تو یونیورسٹی بند ہوگی کوئی خاص سرگرمیاں دیکھنے کو نہیں ملیں گی لیکن جب ہم اتوار کی دوپہر یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ یونیورسٹی کی لائیریری میں تقریبا تین چار سو اسٹوڈنٹس مطالعے میں مصروف تھے اور خاموشی ایسی کہ سوئی گرنے کی آواز تک محسوس کی جا سکتی تھی ۔

ہم حیران ہوئے کہ ہمارے ہاں مغرب کا تصور یہ ہے کہ وہ ہفتے کے پانچ دن کام کرتے اور ہفتہ اتوار کو آرام کرتے ہیں لیکن اگر اتورا کو لائبریری کی یہ حالت ہے تو ورکنگ ایام میں کیا حالت ہوتی ہو گی۔ میں یہاں اکثر ایم فل کے اسٹوڈنٹس سے پوچھتا ہوں کہ آ پ کی روٹین کیا ہوتی ہے تو جو جواب ملتا ہے اس میں مجھے لائبریری آورز کہیں نہیں ملتے ۔جب سے 23مارچ کا واقعہ ہوا ہے ملک کے مختلف پلیٹ فارمز پر اس پر بحث ہو رہی ہے ،کوئی کوئی ایک فریق کو درست قرار دے رہا ہے اور کوئی دوسرے کو ،لیکن میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ سچا کوئی بھی ہو دونوں اس جرم میں برابر کے ملوث ہیں، کم از کم میرا ذہن یونیورسٹی سطح کے اسٹوڈنٹس سے اس طرح کی حیوانیت کو تسلیم نہیں کرتا ، میں یونیورسٹی سطح کے اسٹوڈنٹس کے اس رویے اور سلوک کو کوئی سند جواز عطانہیں کر پا رہا ۔

یونیورسٹی کے طالبعلم کا کام پڑھائی ، ریسرچ اور تحقیق ہے اس کے علاوہ جو بھی سرگرمی ہے خواہ وہ طلباء یونین کی صورت میں ہو، خدائی فوجدار بن کر لوگوں کی اصلاح کا ٹھیکہ ہو یا کلچرل ڈے کی صورت میں اپنی تہذیب وثقافت سے بیزاری کا عمل ہو میرے خیال میں یہ سب فضول اور لایعنی ہیں ۔ والدین اپنی اولاد کو یونیورسٹی میں صرف پڑھائی اور اچھا انسان بننے کے لیے بھیجتے ہیں ۔


ہم نے اگر یونیورسٹیوں میں بھی یہی گل کھلانے ہیں اور ہم یونیورسٹی سطح کے اسٹوڈنٹ میں بھی تہذیب ، شائستگی ، شعور اور کردار سازی پیدا نہیں کر سکتے تو میری ملک کے صدر ، وزیر اعظم ، چاروں صوبوں کے وزراء اعلی اور صوبوں کے گورنرز سے درخواست ہے کہ آپ ملک کی تمام یونیورسٹیاں بند کر دیں ، آپ یونیورسٹیوں کو تالا لگا دیں اور تمام یونیورسٹیوں کے مین گیٹ پر لکھ کر لگا دیں کہ یہاں انسانیت مر چکی ہے ، تہذیب نے خو د کشی کر لی ہے اور ہم اپنی یونیورسٹیوں میں تعلیم ، تہذیب، ریسرچ ، تخلیق ،علم ،شعور، آگہی اور کردار سازی میں ناکام ہو گئے ہیں اور ہم اپنی اس ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی یونیورسٹیوں کو ہمیشہ کے لیے بند کر رہے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :