مجھے سیکولرزم سے ڈر لگتا ہے!

منگل 6 جون 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ اپریل 2017کی بات ہے، ملک کی ایک معروف یونیورسٹی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس ہوئی ، مجھے بھی اس میں شرکت کا موقعہ ملا، اس طرح کی کسی کانفرنس میں شرکت کا میرا یہ پہلا موقع تھا ، حالانکہ میرا انجمن ترقی پسند مصنفین سے دور کا بھی تعلق نہیں لیکن محض اس غرض سے کہ کچھ دوست احباب سے ملاقات ہو جائے گی میں اس میں شرکت کے لیے چلا گیا ۔

مختلف سیشن ہوئے ، دانشوروں نے مختلف موضوات پر اپنی ”دانش“ کے موتی بکھیرے اور خاص کر مذہب اور اہل مذہب کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ ویسے جس محفل کی صدارت محترم ڈاکٹر مہدی حسن اور محترم وجاہت مسعود صاحب جیسے دانشور کر رہے ہوں وہاں مذہب کو کس طرح آڑے ہاتھوں لیا گیا ہو گا ، یہ انداز ہ کرنا البتہ مشکل نہیں ۔ ریاست کے سیکولر یا مذہبی ہونے کی بات چلی ، اکثر دانشوروں کا بنیادی استدلال قائد اعظم کی چند تقاریر اور ان کے اقتباسات تھے، شرکاء کی اکثریت چونکہ انجمن ترقی پسند سے وابستہ افراد کی تھی اس لیے خوب واہ واہ ہوئی۔

(جاری ہے)

آخر میں سوالات کا سیشن ہوا تو میں نے عرض کیا :” اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ وہ سیکولر ریاست کے داعی تھے تو کیا قائد اعظم ہمارے لیے حرف آخر کا درجہ رکھتے ہیں ؟کیا ایک مسلمان معاشرے میں عملی احکام کے نفا ذ میں انہیں فائنل اتھارٹی کا درجہ دیا جا سکتا ہے ؟ جبکہ ہمارے ہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کبار صحابہ کرام کا عمل یہ تھا کہ وہ اپنی رائے پیش کرتے وقت کہہ دیتے تھے کہ اگر ہماری طرف سے تمہیں کوئی بات پہنچے تو پہلے اسے قرآن و حدیث پر پیش کرو، اگر ہماری بات خلاف ثابت ہو جائے تو اسے رد کر دو ۔

تو پھر ہم اسلام اور سیکولرزم کی بحث میں قائد اعظم کو فائنل اتھارٹی کا درجہ کیوں اور کیسے دے سکتے ہیں ۔ “ میرا سوال اسٹیج پر موجود دانشوروں سے تھا ، کافی غور وخوض کے بعد ایک صاحب بولے ” دیکھیں اسلام سمیت کوئی بھی مذہب جب ریاستی سطح پر نافذ ہوا تو اس کے نتائج کچھ اچھے نہیں نکلے ۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کریں یورپ میں جب تک عیسائیت رائج رہی اور بادشاہ پاپاوٴں کے زیر اثر رہے تو کیا کچھ نہیں ہوا، قرون وسطیٰ کا یورپ اس کی بہترین مثال ہے ، نئے افکار اور نئے نظریات کا گلا گھونٹ دیا گیا ، سائنس دانوں کو پھانسیاں دی گئیں اور بائبل کی تشریح صرف پادریوں کا حق قرار پائی ۔

خدا کے نام پر جنگیں لڑی گئیں اور لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، یہ سب کچھ ریاستی سطح پر مذہب کی بالا دستی سے ہوا ۔ آپ ماضی قریب کی مثالیں دیکھ لیں ، افغانستا ن میں ریاستی سطح پر اسلام کو نافذ کرنے کی کوششوں میں لاکھوں مسلمان جان سے چلے گئے ، آپ مصر کو دیکھ لیں وہاں اس طرح کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا “۔موصوف نے تو یہاں تک جسارت کر ڈالی کہ جنگ جمل اور صفین بھی ریاست کے اسلامی ہونے کا شاخسانہ تھیں ۔

میں نے موصوف کے استدلال کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کی لیکن اسٹیج سے ” وقت کی کمی“ کا راگ الاپ دیا گیا ۔ہمارے سیکولراحباب کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ مذہب کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق دیکھتے ہیں ،مذہب کے حوالے سے ان کی سوچ ان کی مخصو ص دانش کے تابع ہوتی ہے او ر ان کی یہ دانش صرف تاریخی اسلام تک محدود ہے ، وہ یہ تو دیکھتے ہیں کہ تاریخی تناظر میں اسلام نے کیا کیا غلطیاں کی ہیں لیکن اسلام بذات خود اپنا تعارف کیا کرواتا ہے اور قرآن و سنت میں اسلام کا جو تعارف کروایا گیا ہے اس تک ان احباب کی پہنچ نہیں ہوتی اور یہ مسلمانوں کی غلطیوں کی بھی اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔


اس ساری دانش کا لب لباب یہ تھا کہ ہم زندگی کے ہر پہلو کو مذہب کی نظر سے کیوں دیکھتے ہیں ، پھر اس پر چند شواہد پیش کیے گئے۔ مثلا کہا گیا کہ ہمارے سکولوں میں اردوزبان پہلی سے بارھویں تک ایک لازمی سبجیکٹ کے طور پر پڑھائی جاتی ہے ، چونکہ اردو ایک زبان ہے اور اس کو زبان سمجھ کر ہی پڑھانا چاہئے لیکن ہم نے یہاں ہر کتاب کے شروع میں پہلے حمد ، پھر نعت اور اس کے بعد اسوہ حسنہ کے مضامین کو شامل کر دیا ہے ،یہ سرا سر انتہا پسندی ہے ۔

اب آپ ہی بتائیں بندہ اس دانش کا کیا جواب دے۔ ایک اور صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ” میں ایک کالج میں لیکچرار ہوں ، ایک دن ایجوکیشن کی کتاب پڑھا رہا تھا اس میں لکھا تھا کہ حدیث نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی پڑھانی شروع کر دی گئی تھی ، پورے ہال میں تمسخرانہ انداز میں قہقہے بلند ہوئے اور ” ہمیں ہر چیز میں مذہب کو گھسیڑنے کی عادت ہے، نبی کی زندگی میں حدیث پڑھانے کے کیا معنی “ ایک مزید قہقہے کے ساتھ بات ختم ہو گئی۔

سیشن کے آخر میں ، میں ان صاحب کے پاس گیااور عر ض کیا ” کیا آپ مجھے وہ کتاب دکھا سکتے ہیں تا کہ اس میں مصنف یا پبلشر کی اگر غلطی ہے تو اسے اس طرف متوجہ کیاجا سکے“ ان کا جواب تھا ” کتاب اس وقت میرے پاس موجود نہیں ، میں کل آپ کو دیکھ کر حوالہ دے دوں گا“ ہم نے موبائل نمبرز کا تبادلہ کیااور بات ختم ہو گئی ۔ اگلے دن میں نے فون کر کے یا د دہانی کروائی تو موصوف نے ایک دن اور مانگا ، میں نے ہاں کہہ کر فون بند کر دیا۔

اگلے دن پھر فون کیا جواب ندارد،تقریبا دو ماہ ہونے والے ہیں موصوف مجھے ابھی تک وہ کتاب نہیں دکھا سکے۔
سچی بات یہ ہے کہ اس مجلس میں جس طرح مذہب ، اہل مذہب اور شعائر اسلام کا مذاق اڑایا گیا ایک سلیم الفطرت انسان کے لیے یہ برداشت کرنا البتہ ممکن نہیں تھا ۔ آرا ء کا اختلاف ہونا چاہے، آذادانہ بحث و تمحیص اور فکری مسائل پر آذادانہ گفتگو معاشرے کا حسن ہے لیکن یہ آذادی اس قدر بڑھ جائے کہ خود مذہب اور شعائر کا مذاق اڑانا شروع کر دیا جائے اس سے البتہ ڈرنا چاہیے ۔

اس طرح کا رویہ رکھنے والوں کے لیے اللہ نے سورة النساء کی آیت نمبر 140میں واضح پیغام دیا ہے”اللہ نے قرآن میں یہ حکم نازل کر دیا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو جب تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہو جائیں ورنہ تم انہی جیسے ہو جاوٴ گے، بے شک اللہ کافروں اور منافقوں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے “ اور سورہ توبةکی آیت نمبر 65,66میں اس انداز میں تنبیہ کی گئی ہے ” اگر تم ان منافقوں سے دین کا مذاق اڑانے کے بارے میں پوچھو تو وہ کہیں گے کہ ہم تویونہی گپ شپ اور دلگی کر رہے تھے ، کہہ دو ! کیا تم اللہ ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے مذاق کرتے ہو،بہانے مت بناوٴ ، تم ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کر چکے ہو “ فقہاء نے صراحت کر دی ہے کہ شعائر اسلام کا مذاق بالقصد ہو یا محض لطیفہ گوئی کے لیے دونوں صورتوں میں نقصان دہ ہے اور بعض اوقات بات کفر تک جا پہنچتی ہے ۔

نظری و فکری مسائل اور عصری اجتہادی مسائل پر گفتگو ہو نی چاہیے، آذادانہ مسائل پر دلائل سے بات چیت ہونی چاہیے ، دلیل سے دلیل ٹکراتی ہے تو سچ جنم لیتا ہے لیکن اس سارے منظر نامے میں البتہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم حدود کو کراس کر جائیں ۔ سیکولر احباب کی اس طرح کی مجالس کے بعد سچی بات یہ ہے کہ مجھے ڈرلگنے لگا ہے کہ سیکولرزم کی یہ مجالس کہیں قرآن کی ان مذکورہ آیتوں کا مصداق نہ بن جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :