ایسا کیوں ہے ؟

اتوار 25 جون 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

وہ پچھلے ہفتے انتقال کر گیا بڑا نیک انسان تھا اللہ مغفرت کرے ۔ اللہ نے اسے بہت نوازا تھا ، انتہائی شریف اور سلجھا ہوا انسان ، کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا ، کسی کو گالی نہیں دی ، محلے میں سب کا احترام کرتا تھا ، کسی کے سامنے اونچی آواز میں بات کی نہ کبھی کسی کو برا بھلا کہا، بچوں کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آتا تھا ۔ گھر میں سب کی آنکھوں کا تارا تھا ، خاموش مزاج اور اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔

بڑوں کے سامنے کبھی اف تک نہیں کہا، چھوٹوں پے رعب جھاڑناتو اسے آتا ہی نہیں تھا ۔ والدین کے سامنے بچھتا چلا جاتا تھا ، کئی بار ابو نے سخت سست کہا لیکن اس اللہ کے بندے نے آنکھیں اوپرنہیں اٹھائیں ، امی نے بھی ایک بار غصے میں اسے خوب ڈانٹا تھا لیکن اس نے برا نہیں منایا بلکہ اگلے ہی دن امی کے پاوٴں پکڑ کر معافی مانگ لی تھی۔

(جاری ہے)

بڑے بھائی کے سامنے اس نے کبھی زبان چلائی ہو، ایسا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ، چھوٹے بھائیوں کو اکثر جیب خرچ وہی دیتا تھا ، بہنوں کو تو اب اس جیسا بھائی مل ہی نہیں سکتا ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی کرتا ،پھر خود ہی مناتا اور مان جاتا ۔

آفس میں اپنے سینئرز کے سامنے ہمیشہ خاموش رہتا ، کبھی کہیں کو ئی غلط بات دیکھتا تو آہستہ سے انہیں بتا دیتا ،ہمیشہ وقت پے آفس پہنچتا ، کبھی لیٹ ہوا اور نہ کبھی چھٹی کے بعد آفس میں رکا ، آفس میں بھی اپنے کام سے کام رکھتا تھا ، نماز کا پابند ، جیسے ہی نماز کا وقت ہوتا فورا مسجد پہنچ جاتا ۔نماز پر تو وہ کمپرومائز کر ہی نہیں سکتا تھا ، روزانہ قرآن کی تلاوت اس کا معمول تھا ۔

دوستوں میں سب سے ذیادہ شرارتی تھا ، دوستوں کا دوست اور ہر لمحے کسی شرارت میں الجھا رہتا ۔ اخلاق کا بہت اچھا تھا ، کبھی اونچی آواز میں نہیں بولا۔ وہ زندگی کو انجوئے کرنا جانتا تھا ،گھر میں ہر اتوار کوئی نئی فرمائش کر دیتا ۔ رشتہ داروں کے ہاں بہت کم جاتا تھا ، اپنا اکثر وقت کتابیں پڑھنے میں صرف کر تا تھا ،ا سے کتابیں بہت پسند تھی ، ہمیشہ نئی کتابوں کے بارے میں متجسس رہتا ، جو بھی نئی کتاب مارکیٹ میں آتی فورا وہاں پہنچ جاتا ، اس نے گھرمیں چھوٹی سی لائبریری بنا رکھی تھی ،اپنی ماہانہ تنخواہ کا دس فیصد کتابیں خریدنے پر صرف کر دیتا ۔

بہت نیک انسان تھا ، نماز تو کبھی چھوڑی نہیں ، چوری چھپے صدقہ خیرات بھی کرتا رہتا تھا ، ،کبھی دوستوں اور ہمسایوں کی مدد بھی کردیتا تھا ۔ وقت کا بہت پابند تھا ، ہمیشہ وقت پر آتا جاتا ، وقت پر سوتا اور وقت پر کھانا کھاتا ۔ محلے کے غریب اور یتیم بچوں کا بہت خیال رکھتا تھا ، اپنی سیلری کا پانچ فیصد حصہ مسجد کو دیتا تھا۔ غصہ تو اسے آتا ہی نہیں تھا ، بہت میٹھی زبان تھی اس کی ، بڑے چھوٹے سب کو محترم کہہ کے پکارتا تھا ، ، جھوٹ سے اسے شدید نفرت تھی، جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے والوں کو بالکل پسند نہیں کرتا تھا ، غیبت اور چغلی سے اسے بہت ڈر لگتا تھااور موسیقی، فلمیں اورڈرامے دیکھنے سے تو انتہائی نفرت کرتا تھا ، بڑا اچھا انسان تھا اللہ مغفرت کرے ۔


یہ ساری گفتگو وہ ہے جو ہم کسی کے مرنے اور وفات پاجانے کے بعد کرتے ہیں ، ہمارا کوئی عزیز،دوست یا رشتہ دار فوت ہو جائے تو ہم اچھے ، نیک ، رحمدل اور خوش اخلاق انسان جیسی صفات کے علاوہ اس کا تذکرہ نہیں کرتے ۔ وفات پانے والا خواہ کیسا ہی ہو اس کے مرنے کے بعد اس کے بارے میں ہمارا وریہ بدل جاتا ہے ، مرنے کے بعد ہماری نظروں میں اس کے سارے عیب چھپ جاتے ہیں ، وہ نیک بھی ہو جاتا ہے ، اس کے اخلاق بھی اچھے ہوجاتے ہیں ، وہ نماز روزے کا پابند بھی ہو جاتا ہے ، اسے معاشرت بھی آجاتی ہے ، وہ صدقہ خیرات بھی کرنے لگتا ہے ، اسے بڑے چھوٹوں سے بات کرنے کا سلیقہ بھی آجاتا ہے ، اسے زندگی گزارنے کاڈھنگ بھی آجاتا ہے اور وفات پاجانے کے بعد اس میں ایک اچھے ،نیک اور رحمدل انسان والی ساری خوبیاں بھی آ جاتی ہیں اور مرنے کے بعد ہم اسے ”انٹر نیشنل بزرگ“ ڈکلیئر کرنے کے لیئے بھی تیار ہو جاتے ہیں ۔

دکھ اور افسوس مگر یہ ہے کہ اگر ہمارا یہی عزیز، دوست یا رشتہ دار زندہ ہوتا تو ہم اسے انسان ماننے کے لیئے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ جب تک ہمارا کوئی عزیز ، دوست یا رشتہ دار زندہ ہوتا ہے ہمیں وہ بالکل نکما ، نکھٹو، آوارہ، کام چور، لاپرواہ، بد اخلاق اور زبان دراز دکھائی دیتاہے ، اسے بڑوں سے بات کرنی آتی ہے نہ وہ چھوٹوں پر شفقت کرنا جانتا ہے ، محلے اور گھر کا ہر فرد اس سے تنگ نظر آتا ہے ، بہن بھائی اس سے نالاں دکھائی دیتے ہیں ، آفس کے سب لوگوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے، وہ ہمیشہ گلا پھاڑ کر با ت کرتا ہے ، اسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا اور وہ ہماری نظروں میں انتہا درجے کا بد اخلاق او ر خود غرض انسان ہوتا ہے ۔


ہماری یہ نفسیات ثابت کرتی ہیں کہ ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں ،ہمیں زندہ انسان اچھے نہیں لگتے ، جب تک ہمارے عزیز، دوست اور رشتہ دار زندہ ہوتے ہیں ہمیں ان کے اچھے کام بھی برے دکھائی دیتے ہیں اورہماری کوشش ہوتی ہے کہ حتی الامکان اس میں کیڑے نکالے جائیں ، ہم میں اتنی اخلاقی جرئت نہیں ہوتی کہ ان کے اچھے کاموں پر ان کی تحسین کر سکیں لیکن جیسے ہی ان کی وفات ہوتی ہے ہماری ساری ہمدردیاں جاگ اٹھتی ہیں اور ہمیں ان کو فرشتہ ڈکلیئر کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی ،مجھے نہیں معلوم یہ ہماری منافقت ہے یا ہماری اخلاقی پستی ،لیکن بہر حال کچھ ہے ضرور ۔

ہمیں یہ زندہ انسان باالکل اچھے نہیں لگتے لیکن جب یہ چھ فٹ زمین کے اندر چلے جاتے ہیں تب ہماری منافقت جاگ اٹھتی ہے ۔ یقین کریں ہم جن کی قبروں پر جا کر دو دو گھنٹے روتے ہیں اگر وہ زندہ ہو جائیں تو ہم انہیں ایک لمحے کے لیئے جینے نہ دیں ۔ یہ ہمارے سماج کا ایک مجموعی رویہ ہے جو ہماری تنگ نظری،اخلاقی پستی، تہذیبی زوال اور پست معیار زندگی کی نشاندہی کرتا ہے ۔

ہمارا یہ رویہ صرف ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ ہم نے اپنے قومی ہیروز کے ساتھ بھی یہی کیا ، ارفع کریم سے ڈاکٹر عبدالقدیر تک یہی داستان پھیلی ہوئی ہے ، ہم جیتے جی لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور جب وہ مر جاتے ہیں ہم ان کی قبروں پر قبے اور مزار بنا کر انہیں پوجنا شروع کردیتے ہیں، اگر میں غلط نہیں کہہ رہاتو ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں ۔ اگر مرنے والا واقعی اچھا انسان ہے تو آپ اس کی زندگی میں اسے یہ مقام کیوں نہیں دیتے ،اس کی تعریف میں دو لفظ کہتے ہوئے آپ کی زبان کیوں دکھتی ہے اور آپ کے الفاظ کیوں خاموش ہو جاتے ہیں ۔

کیا یہاں نیک اور شریف ہونے کے لیئے بھی مرنا ضروری ہے ۔ مردہ پرستی کو چھوڑیں اور زندوں کی تعریف کرنا سیکھیں ، مرنے کے بعد ہر کوئی تعریف کرتا ہے لیکن سامنے کھڑے عزیز، دوست ، کولیگ اور رشتہ دار کی تعریف کرنا بڑے دل گردے اور بڑے ظرف والوں کا کام ہے ۔ بڑوں کو بڑا ہونے کا حق دیں ، چھوٹوں کی مسلسل حوصلہ افزائی کریں ،زندگی میں کامیابی کے لیئے حوصلہ افزائی کے لیئے کہا گیا کسی کا ایک جملہ کافی ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :