ایک غیر ملکی سیاح کا سفرنامئہ پاکستان ۔ آخری قسط

ہفتہ 8 جولائی 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں نے دیکھا ایک جگہ پر کافی لوگ جمع ہیں ، میں مجمعے کے قریب گیا تو دیکھا لوگوں کا ایک ہجوم دو نہتے افراد کو ماررہا تھا ، شاید وہ دونوں کسی چوری کے شبے میں اس ہجوم کے ہتھے چڑھ گئے تھے ، ان کا حال بہت برا تھا ، ان کے کپڑے مکمل طور پر پھٹ چکے تھے ، ان کا پورا وجود برہنہ تھا اور لوگ ان کے برہنہ وجود پر لاتیں ، مکے اور ٹھڈے مار رہے تھے ، مجمعے میں سے ایک ادھیڑ عمر شخص آگے بڑھااور اس نے مشتعل ہجوم کو روکنے کی کوشش کی لیکن قریب تھا کہ اس کا سر بھی پھاڑ دیا جاتا، بوڑھا شخص خاموشی سے اپنے راستے پر چل دیا۔

میں نے یہ منظر دیکھا تو میری روح تک کانپ گئی ، میں نے زندگی میں اتنا خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ میں نے زندگی میں پہلی بار انسانیت کو انسانیت کے ہاتھوں مرتے دیکھا، میں نے پہلی بار انسانیت کی اتنی تذلیل دیکھی اورمجھے مجمعے میں ہر شخص کے چہرے پر وحشت اور درندگی کے آثار دکھائی دیئے ۔

(جاری ہے)

یہ سارا منظر دیکھ کر میں کانپ اٹھا اور اس واقعے کے آفٹر شاکس مجھے آج بھی ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔

یہ منظر دیکھنے کے بعدمیں آگے بڑھ گیا ، آج میرا اندرون شہر گھومنے کا ارادہ تھا ، میں ایک لوکل بس پر سوار ہو گیا ، بس مسافروں سے اٹی پڑی تھی ، بس میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ڈرائیور ہر اسٹاپ پر گاڑی کھڑی کرتا اور مزید سواریاں بس پر چڑھ جاتیں ۔ حبس کی وجہ سے لوگوں کا دم گھٹ رہا تھا ، لوگ غصے سے چڑچڑے ہوگئے تھے ، کسی کا ہاتھ کسی سے ٹکرا جاتا تو جنگ عظیم برپا ہو جاتی ۔

بس میں خواتین کا برا حال تھا ، خواتین مردوں کے ساتھ کھڑی ہونے پر مجبور تھیں ۔ رہی سہی کسر کنڈیکٹر کے کرخت رویے نے پوری کر دی تھی ، اس کا رویہ بہت عجیب تھا ، میں نے دیکھا وہ ایک ستر سالہ بوڑھی عورت سے الجھ رہا ہے ، شاید اس عورت کے پاس کرایہ کم تھا اور کنڈیکٹر ذیادہ طلب کرنے پر بضدتھا۔ کنڈیکٹر نے حتمی فیصلہ سنایا اگر آپ نے پورا کرایہ نہیں دینا تو آپ بس سے نیچے اتر جائیں ، اس بڑھیا کے پاس شاید پیسے نہیں تھے ، کنڈیکٹر نے بس رکوائی اور اسٹاپ سے بہت دور اسے اتار دیا۔

میں نے دیکھا کہ دیکھنے والوں میں سے کسی میں اتنی جرائت نہ ہوئی کہ کنڈیکٹر کو اس گھٹیا حرکت سے منع کرے ، میں بھی مصلحتا خاموش رہا کہ کہیں غیر ملکی ہونے کی وجہ سے دھر نہ لیا جاوٴں ۔ میں اندرون شہر پہنچا تو میری حیرت کی انتہاء نہ رہی ، لوگ چھوٹے چھوٹے گھروں اور فلیٹوں میں رہائش پذیر تھے ، مکانات انتہائی بوسیدہ اور عمارتیں بہت پرانی تھیں ،میں جب کسی قدیم عمارت کے پاس سے گزرتا تو یوں لگتا جیسے یہ ابھی میرے اوپر آ گرے گی لیکن لوگ ایسی بلڈنگوں میں اپنی فیملیوں سمیت رہائش پذیر تھے ۔

کم سے کم درجے کا زلزلہ بھی آتا تو یہ ساری عمارتیں مٹی کا ڈھیر بن جاتیں لیکن لوگ بے خوف و خطر ان میں رہ رہے تھے ۔ یہ ایک عجیب منظر تھا تنگ گلیاں ، بوسیدہ عمارتیں ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، گرمی اور حبس کی انتہاء، پانی کی عدم دستیابی اور لوگوں کا بے پناہ ہجوم ۔ میں نے پہلی بار زندگی کو اتنا کربناک پایا شاید زندگی خود اپنے آپ سے تنگ تھی۔ مقامی لوگوں سے مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان کے ہر شہر میں ایسے گنجان آباد علاقے موجود ہیں ۔

واپسی پر مجھے ایک ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا ، یہ بھی ایک عجیب دنیا تھی، ہر طرف لوگوں کا رش تھا ، لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ نیچے برہنہ زمین پر بیٹھے تھے ، رش کا عالم یہ تھا کہ ہسپتال کے کوریڈور لوگوں سے بھرے ہوئے تھے ، پورے ہسپتال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی ، لو گوں کو جہاں جگہ ملتی تھی وہیں چادر بچھا کر اپنے مریض کو لٹا دیتے تھے ، باہر فٹ پاتھ تک لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔

ڈاکٹروں کے کمروں کے باہر لوگوں کا رش غیر معمولی تھی ، نظم و ضبط یا ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں تھی ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون تھا ۔لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے جبکہ ہسپتا ل چھوٹا تھا ، ڈاکٹروں کی تعداد بھی کم تھی، ایک ایک بیڈ پر تین تین مریضوں کو لٹایا گیا تھا ۔ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا رویہ بہت کرخت تھا ، ان میں کمیونیکشن اسکلز نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

مجھے کسی نے بتایا کہ یہاں بیس بیس لاکھ آباد ی کے لیے صرف ایک ہسپتال ہے اور اس میں بھی صرف چند دوائیں مہیا ہوتی ہیں ، ڈاکٹر میڈیسن کمپنیوں کے ساتھ مل کر ان کی دوائیں تجویز کرتے ہیں اور ان سے باقاعدہ کمیشن وصول کرتے ہیں ۔ یہ انکشافا ت میرے لیے حیران کن تھے ۔
اگلے دن مجھے ایک یونیورسٹی جا نے کا اتفاق ہوا ، یہ ملک کی سب سے بڑی پبلک سیکٹر یونیورسٹی تھی ، اس میں ہزاروں اسٹوڈنٹس زیر تعلیم تھے ، سب سے پہلے میں یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں گیا ، میرے ذہن میں لائبریری کا جو تصور تھا اسے یہاں دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی ، ہمارے ہاں سنڈے کو بھی لائبریریاں بھری ہوتی ہیں لیکن یہاں مجھے منگل کو بھی لائبریری خالی دکھائی دی ، لائبریری میں صرف چند اسٹوڈنٹ بیٹھے تھے ، ان میں سے بھی اکثر باتوں میں مصروف تھے اور بعض نے کانوں میں ہینڈ فری لگا رکھی تھی ، لائبریری میں سہولیات میسر تھیں لیکن ان سہولیات سے کوئی فائدہ اٹھانے والا نظر نہیں آیا ۔

یہ ساری صورتحال مجھے ایک نئے کر ب میں مبتلاء کر گئی۔ اس کے بعد میں یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس میں گیا ، مختلف طلباء سے ملا ،مجھے ان میں سنجیدگی اور مقصدیت کا فقدان نظر آیا ، تخلیق کاری تو کجا یہاں اکثر اسٹوڈنٹ کاپی پیسٹ کرتے نظر آئے ۔ فوٹو کاپی شاپ پر کافی رش تھا ، مجھے کسی نے بتایا کہ یہ سب اسٹوڈنٹس نوٹس کاپی کروانے کے لیے کھڑے ہیں ، دس دس سال سے وہی نوٹس چلتے آ رہے ہیں اور ان میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں ہوتی۔

طلباء نوٹس لیتے ہیں اور ان سے تیاری کر کے امتحان پاس کر لیتے ہیں ، ریسرچ، تحقیق اور تخلیق نام کی کوئی چیز مجھے یہاں دکھائی نہیں دی ۔ اس کے بعد مجھے ایک مذہبی ادارے کے وزٹ کا موقعہ ملا ، یہ بھی حیران کن تجربہ تھا، یہاں تعلیم سادگی کے ساتھ دی جا رہی تھی، استاد ایک اونچی جگہ پر بیٹھا پڑھا رہا تھا اور اسٹوڈنٹ سامنے زمین پر بیٹھے تھے ۔

ایک ایک کلاس میں سینکڑوں کی تعداد میں اسٹوڈنٹ بیٹھے ہوئے تھے ، یہاں مجھے نظم و ضبط کی کمی کااحساس ہوا ۔ طلباء کی ظاہری وضع قطع بھی درویشانہ تھی۔مجھے طلباء میں خود اعتمادی کا فقدان نظر آیا ،اکثر طلباء ٹھیک طرح سے گفتگو بھی نہیں کر پاتے تھے ۔ میں نے یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی کہ ان طلباء میں معاشرتی مطابقت کا پہلو بڑی حد تک کمزور ہے ، یہ طلباء اپنے معاشرے سے بے خبر اور اپنی الگ دنیا میں ہی آباد رہتے ہیں ۔

مجھے کسی نے بتایا کہ ان مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب بھی بہت قدیم ہے ، میں نے تحقیق کی تو یہ بات سچ ثابت ہوئی ۔ یہاں ایسی کتابیں اور ایسے فنون بھی پڑھائے جا رہے تھے جن کا موجودہ زمانے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور جن موجودہ علوم و فنون کو پڑھانے کی ضرورت تھی انہیں یکسر نظر انداز کر دیا گیاتھا ۔
یہ کچھ مشاہدات تھے جو میرے حافظے پر نقش ہو گئے ، میں نے ان کا مختصر خلاصہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کبھی موقعہ ملا تو تفصیلا بھی لکھنے کی کوش کروں گا۔ مختصر لفظوں میں اگر اپنے تاثرات کا اظہا رکرنا چاہوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے پاکستانی قوم کو تعلیمی،مذہبی، اخلاقی، سماجی، معاشی ، لین دین اور معاملات کے حوالے سے بہت کمزور پایا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :