
ہمارے مدارس اور الومنائی!
منگل 13 فروری 2018

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
ہم اس وقت اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں ، اکیسویں صدی کے آغاز سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے ۔ مذہب ، سائنس ، سیاست، معیشت، تعلیم ، ٹیکنالوجی، علمیات، میڈیا، روشن خیالی ، آذادی اظہار، انٹر نیٹ ،سوشل میڈیا اور فرد کی آذادی جیسے نئے تصورات نے انسانی سماج کو نئی بنیادوں پر استوار کر دیا ہے ۔ انسانی زندگی کے ان تمام دائروں میں بنیادی اور جوہری تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں اور ارتقاء کا یہ سفر آئندہ بھی رکنے والا نہیں ۔ اس ساری تبدیلی کی بنیاد علم جدید ہے اور علم جدید کے پیچھے مغربی فکر و فلسفہ کھڑا ہے ۔ اس تبدیلی کے مثبت اور منفی پہلو کون سے ہیں اور ایک اسلامی سماج کے لیے یہ تبدیلیاں کہاں تک قابل قبول ہیں ، مذہب ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے اور ان نئے تصورات کے بارے میں کیا راہنمائی فراہم کرتاہے انسانی زندگی کا یہ پہلو تا حال تشنہ طلب ہے اور اس کی ذمہ داری ہمارے مدارس اور علماء پر عائد ہوتی ہے ۔کیا مدارس اور علماء اپنی یہ ذمہ داری پوری کر رہے ہیں ؟ اس سوال سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب ہم مدارس اور علماء کی بات کر رہے ہیں تو یہاں دو چیزیں ہیں ،ا یک ، ان کی نیت، دوسرا ان کا عمل، ہم ارباب مدارس کی نیت پر شک کرسکتے ہیں اور نہ مذہب کسی کی نیت کو زیر بحث لانے کی اجازت دیتا ہے ، ہم صرف ان کے عمل اور حکمت عملی پربات کر سکتے ہیں اور میرے ناقص خیال کے مطابق مدارس کے نظام اور حکمت علمی میں بہت ذیادہ بہتری کی گنجائش موجود ہے ۔ اگر ہم جائزہ لیں تو پاکستانی سماج کو زندگی کے مختلف دائروں میں مذہب کی راہنمائی کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت ہمارے علماء ہی پوری کر سکتے ہیں، دوسرے لفظو ں میں مدارس اور علماء کے لیے یہ میدان خالی پڑے ہیں اور درست حکمت عملی نہ اپنانے کی وجہ سے یہ خلا بڑھتا جا رہا ہے ۔ وہ دائرے کو ن کون سے ہیں ، اس میں سب سے پہلے مساجد میں امامت و خطابت کا دائرہ ہے ، پھر فقہ افتاء کا دائرہ ہے ، تیسرا دائرہ وعظ و تبلیغ کا ہے ، چوتھا دائرہ شہروں ، گاوٴں دیہات میں بنیادی دینی تعلیم کا ہے ، پانچواں دائرہ میڈیا و ابلاغ کا ہے ، چھٹا دائرہ اسکول کالج اور یونیورسٹی میں اسلامیات کی تدریس کا ہے ، ساتواں دائرہ خود مدارس کی تعلیم اور درس نظامی کی تدریس کا ہے ، آٹھواں دائرہ جدید مسائل میں ریسرچ واجتہاد کا ہے ، نوواں دائرہ جدید مغربی فکر وفلسفہ اورلبرل افکارپر نقد و نظر کا ہے ، دسواں دائرہ تصنیف و تالیف کا ہے ، گیارواں دائرہ جدید بینکنگ، مالی اور اقتصادی مسائل کا ہے اور بارواں دائرہ سیاست اور سوشل ورک کا ہے ۔ سماج کے یہ اہم ترین دائرے ہیں جہاں انہیں مذہب کی راہنمائی درکار ہے اور ان دائرہ کے حوالے سے تفصیلی بات ہم اگلے کسی کالم میں کریں گے۔
اب ہم آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ ہر سال دس ہزار کی تعداد میں فارغ ہو نے والے علماء اوراتنی ہی عالمات کہاں کھپ رہی ہیں اور سوسائٹی میں ان کا کیا کردار ہے ، ایک اندازے کے مطابق ان میں سے بیس فیصد طلباء عصری تعلیم میٹرک یا ایف اے کی تیاری میں مشغول ہو جاتے ہیں ، دس فیصد درس نظامی کی بنیاد پرکسی یونیورسٹی میں ایم فل اسلامیات میں داخلہ لے لیتے ہیں ، اتنے ہی طلباء سرکاری ملازمتوں میں کھپ جاتے ہیں اور تقریبا دس فیصد طلباء مختلف مسائل اور گھریلو مجبوریوں کے باعث محنت مزدوری شروع کر دیتے ہیں ۔ باقی صرف پچاس فیصد طلباء بچتے ہیں ، ان میں سے بھی دس فیصد ایسے ہوتے ہیں جنہیں کسی مسجد میں جگہ مل جاتی ہے اور وہ اپنے والد یا بھائی کی جگہ پر مسجد سنبھال لیتے ہیں ، بیس فیصد طلباء مختلف مدارس میں درس نظامی کی تدریس میں مشغو ل ہو جاتے ہیں ، پانچ فیصد ایسے ہوتے ہیں جو ایک سال کے لیے تبلیغی جماعت میں نکل جاتے ہیں اور جو باقی دس پندرہ فیصد بچتے ہیں وہ اپنا کو ئی ذاتی کارو بار کرتے ہیں یا وہ فارغ رہ کر زندگی کزارنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ صرف چالیس پچاس فیصد طلباء ایسے ہوتے ہیں جو دین کے کسی کام میں جڑتے ہیں اوروہ بھی ان مذکورہ دائروں میں سے صرف دو تین کو ٹچ کرتے ہیں اور باقی میدان خالی پڑے رہتے ہیں ۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری ان مدارس اور علماء کے کندھوں پر عائد ہو رہی ہے اور دوسری طرف یہ عالم ہے کہ خلا پر تو کیا ہو مزید بڑھتا جا رہا ہے ۔ اس پر مستزاد کہ جو طلباء اس خلا کو پر کرنے کے لیے مذکورہ دائروں میں رہ کر کام کررہے ہیں انہیں مناسب راہنمائی فراہم کرنے والا کوئی نہیں۔جامعة الرشید نے اس حوالے سے جو قدم اٹھایا ہے وہ یقینا قابل تحسین اور لائق تقلید ہے ، سابق فضلا ء کا سالانہ اجماع، ان کی مناسب راہنمائی او ر الومنائی ایسوسی ایشن کا قیام یہ وہ اقدام ہیں جن سے مذکورہ خلا کر پر کیا جا سکتا ہے لیکن یہ صرف آغاز ہے ، ابھی صرف شروعات ہیں اوربہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ دوسرے مدارس بھی اپنے طور پر اس روایت کو اپنا کر اپنے فضلاء کو معاشرے کی بہتری کے لیے تیا ر کر سکتے ہیں، اس سے سو نہیں تو دس بیس فیصد خلا تو پر ہو سکتا ہے اور ظلمتوں اور معصیتوں کے اس خوفناک جنگل میں اتنی سی روشنی بھی کسی نعمت سے کم نہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.