جواہرات !!

منگل 29 مئی 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

وہ رکے اور ارشاد فرمایا ”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹتے ہیں“ وہ بات کر کے رکے تو ایک پوچھنے والے نے پوچھا:” کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟“ انہوں نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت بڑی تعداد میں ہو گے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا“ پوچھنے والے نے پھر پوچھا: ”حضرت وہن کیا چیز ہے؟“ انہوں نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔

“عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں حوض کوثر پر تم لوگوں کا پیش خیمہ ہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میری طرف آئیں گے جب میں انہیں حوض کا پانی دینے کے لیے جھکوں گا تو انہیں میرے سامنے سے کھینچ لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

میں کہوں گا اے میرے رب! یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی باتیں نکال لی تھیں۔

“اسامہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی کریم مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں، نبی کریم نے فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔ابن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے آپ کویہ فرماتے سنا کہ وہ بدبخت ترین لوگوں میں سے ہوں گے جن کی زندگی میں قیامت آئے گی۔

ابوہریرہ  فرماتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایاعنقریب ایسے فتنے برپا ہوں گے جن میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، جو دور سے ان کی طرف جھانک کر بھی دیکھے گا تو وہ اس کو بھی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اس وقت جس کسی کو کوئی پناہ کی جگہ مل جائے یا بچاوٴ کا مقام مل سکے وہ اس میں چلا جائے۔

ابو سعید خدری  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ وقت قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑی کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں پر چلا جائے گا، وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے وہاں بھاگ کر آ جائے گا۔ابوہریرہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے کی قبر کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا، کاش! میں اس کی جگہ ہوتا۔

ابوہریرہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو عظیم جماعتیں جنگ نہ کریں گی۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی خونریزی ہو گی حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا ، یہاں تک کہ بہت سے جھوٹے دجال بھیجے جائیں گے۔ تقریباً تین دجال، ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور علم اٹھا لیا جائے گا اور زلزلوں کی کثرت ہو گی اور زمانہ قریب ہو جائے گا اور فتنے ظاہر ہو جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا اور ہرج سے مراد قتل ہے اور تمہارے پاس مال کی کثرت ہو جائے گی بلکہ بہہ پڑے گا اور صاحب مال کو اس کی فکر دامن گیر ہو گی کہ اس کا صدقہ قبول کون کرے اور وہ صدقہ پیش کرے گا لیکن جس کے سامنے پیش کرے گا وہ کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اور لوگ بڑی بڑی عمارتوں پر آپس میں فخر کریں گے، ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر عمارات بنائیں گے اور ایک شخص دوسرے کی قبر سے گزرے گا اور کہے گا کہ کاش میں اس جگہ ہوتا ۔

۔۔الخ۔حضرت ابوموسیٰ  نبی کریم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت آنے سے پہلے فتنے ظاہر ہوں گے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے۔ان فتنوں کے زمانے میں آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر ہو جائے گا۔ شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا۔۔۔الخ۔ حضرت حذیفہ نے بیان کیا کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ اسلام سے قبل جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کے صدقہ میں ہمیں یہ ہدایت بخشی کیا اس ہدایت وبھلائی کے بعد کوئی اور برائی وبدی پیش آنے والی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا تو کیا اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہوگا کہ جس کی وجہ سے دین وشریعت کا پھر بول بالا ہو جائے؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہوگا لیکن اس میں کدورت ہوگی۔

میں نے عرض کیا کہ اس بھلائی کی کدورت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میرے طریقے اور میری روش کے خلاف طریقہ و روش اختیار کریں گے۔ لوگوں کو میرے بتائے ہوئے راستہ کے خلاف راستہ پر چلائیں گے اور میری سیرت اور میرے کردار کے خلاف سیرت وکردار اپنائیں گے تم ان میں دین دار بھی دیکھو گے اور بے دین بھی۔ میں نے عرض کیا ، کیا اس بھلائی کے بعد پھر کوئی برائی پیش آئے گی؟ آپ نے فرمایا ہاں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اپنی طرف بلائیں گے جو شخص ان کے بلاوے کو قبول کر کے دوزخ کی طرف جانا چاہے گا اس کو وہ دوزخ میں دھکیل دیں گے ۔

میں نے عرض کیا کہ ان کے بارے میں وضاحت فرمائیے کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ وہ ہماری قوم ، ہمارے ابناء جنس اور ہماری ملت کے لوگوں میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔میں نے عرض کیا کہ تو پھر میرے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے یعنی اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاوٴں تو مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے؟ آپ نے فرمایا۔

کتاب وسنت پر عمل کرنے والے مسلمانوں کی جماعت کو لازم جاننا اور ان کے امیر کی اطاعت کرنا۔۔۔الخ۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا۔ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے علم اٹھا لیا جائے گا ، فتنے پھوٹ پڑیں گے بخل ڈالا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہرج کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا قتل۔

حضرت ابوہریرہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے پوری دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک لوگوں پر ایسا دن یعنی بدامنی وانتشار فتنہ وفساد کی شدت انتہا سے بھرا ہوا وہ دور نہ آ جائے جس میں نہ قاتل کو یہ معلوم ہوگا کہ اس نے مقتول کو کیوں قتل کیا اور نہ مقتول یا اس کے ورثاء کو معلوم ہوگا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔

پوچھا گیا کہ یہ کیونکر ہوگا یعنی اس کی وجہ کیا ہوگی ؟ آپ نے فرمایا۔ ہرج کے سبب، نیز قاتل ومقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے۔
میں نے کتاب الفتن سے یہ چند احادیث اکھٹی کی ہیں ، ان احادیث کی روشنی میں ہر شخص اپنا محاسبہ کر سکتا ہے کہ وہ کس زمانے میں جی رہا اور کس مقام پر کھڑا ہے ۔احادیث میں بیان کردہ اکثر نشانیاں پوری ہو چکی ہیں اور میرا ماننا یہ ہے کہ آج کے اس پر فتن دور میں اپنا ایمان بچا کر قبر تک لے جانا بہت بڑی کامیابی ہے ۔ سیاست پر تو بہت لکھا جا چکا کہ ہر اخبار سیاست کے گند سے بھرا ہے کیوں نہ رمضان کی ساعتوں میں ان احادیث پر بھی غور کر لیا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :