
دینی مدارس اور نصاب ونظام کی بحث!
منگل 20 اپریل 2021

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
مزید لکھتے ہیں :” دین اسلام کے مخالفین کے سامنے بھی یہی بوریا نشین سیسہ پلائی دیوار بن کر ہر محاذ سنبھالے ہوئے ہیں۔ میں دنیاوی تعلیم کا گریجویٹ ہوں اور لندن میں تیسری نسل کے ساتھ رہ رہا ہوں، دیانت داری سے کہہ رہا ہوں کہ دنیاوی یونیورسٹی سے گریجویٹ کے مقابل چٹائی پہ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والا زیادہ فہم و شعور رکھتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دیگر علوم میں دسترس بھی ضروری ہے تو اس کی بہترین مثال حضرت مفتی تقی عثمانی کی ذات موجود ہے، صرف بینکنگ کے بارے مفتی صاحب کی خدمات سے پورا عالم استفادہ کر رہا ہے۔ مفتی صاحب نے بھی مدرسہ میں وہی درس نظامی پڑھا ہے، مفتی صاحب کی طرح ہر عالم دین اپنی ذاتی استعداد سے کسی بھی شعبہ کی تعلیم ذاتی طور پہ حاصل کر سکتا ہے مگرمدرسہ کے نصاب میں تبدیلی یا اضافہ کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی دنیاوی تعلیم کے اضافی مضامین پڑھے بغیر عالم دین کی تعلیم میں کوئی کمی رہتی ہے۔جو حضرات مدرسہ کے نصاب میں اضافی مضامین پڑھانے کو ضروری سمجھتے ہیں انکے مد نظر روزگار کا بندو بست ہے۔دار العلوم دیوبند میں کسی زمانہ میں درس نظامی کے ساتھ حکمت کا اضافی مضمون بھی پڑھایا جاتا تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علماء کی ایک جماعت، متدین اساتذہ سے پڑھنے کے باوجود دینی خدمات کی بجائے حکمت کو پیشہ بناکر پیسہ کما نے میں مصروف ہو گئی اور اسی کمائی کے چکر میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔ پورا علاقہ بے دین بلکہ ان کی اولادیں بے دینی کی زندگی گزار رہی ہیں، یہ میرے گاوں اور گردو نواح کے واقعات ہیں جن کا میں عینی شاہد ہوں۔ میرے گاوٴں سے دس میل گردو نواح میں حضرت حسین احمد مدنی سے چھ حضرات پڑھ کر آئے تھے جن میں سے صرف ایک مولانا عبداللہ رحمہ اللہ آف ملکہ نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیا، علاقہ کے تقریباً ہر گاوٴں میں ان کی دینی خدمات کے اثرات موجود ہیں۔ جبکہ مولانا مدنی کے باقی شاگرد حکیم کے طور پر مشہور ہوئے اور انہوں نے مستقل طور پر حکمت کو پیشہ بنالیا اور ساری زندگی حکمت ہی کرتے رہے۔گویا حضرت کے تراسی فیصد شاگرد ایک مضمون ( حکمت ) کے اضافہ سے دینی تعلیم بھول کر حکمت ہی کو مقصد زندگی بنابیٹھے تھے۔ اب درس نظامی کے ساتھ کئی اضافی مضامین پڑھائے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں بابو مولوی پیدا ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مضامین کے اضافہ کی بجائے درس نظامی سے فراغت کے بعدتبلیغی جماعت میں وقت لگایا جائے اور اہل اللہ کی صحبت اختیار کی جائے وگرنہ اضافی مضامین سے نتیجہ تراسی فی صد حکیم بننے سے بھی بڑھ جائیگااور مدارس کی روح ختم ہو جائے گی ۔ “ یہ لندن میں بیٹھے ایک فکرمند مسلمان کے خیالات ہیں ، ان سے اتفاق و اختلاف ممکن ہے مگر اسناد اور روزگار کی بحث کے دوران ان پہلووٴں کو مدنظر رکھنا لازم ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.