خدا کو ماننا کیوں ضروری ہے!

منگل 28 ستمبر 2021

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ڈاکٹر ہنری کے بیچر امریکہ کے مشہور میڈیکل ڈاکٹر تھے ،1904میں مغربی ریاست کنساس میں پیداہوئے، 1927میں کنساس یونیورسٹی سے فزیکل کیمسٹری میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور1928میں پی ایچ ڈی کے لیے ہارورڈ میڈیکل سکول میں انرول ہو گئے ۔ 1939میں جنگ عظیم دوم شروع ہوئی، ہٹلر طوفان کی طرح آگے بڑھ رہا تھا، میدان جنگ میں ہزاروں زخمی علاج کے لیے تڑپ رہے تھے، امریکہ اور اتحادیوں کے لیے یہ صورتحال بہت خوفناک تھی، امریکہ نے پورے ملک سے ڈاکٹروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا اورانہیں جنگ زدہ علاقوں میں بھیج دیا ۔

ڈاکٹر ہنری کی پوسٹنگ شمالی افریقہ اور بعد ازاں اٹلی میں ہوئی ،اٹلی میں اتحادی افواج کی صورتحال بہت پریشان کن تھی ، ہزاروں فوجی میدان جنگ میں تڑپ رہے تھے ، فیلڈ ہسپتال بھر چکے تھے اور ادویات کم پڑ چکی تھیں، نوبت یہاں تک آ گئی کہ زخمیوں کو بے ہوش کرنے والی دوا مارفین کی شدید قلت ہو گئی ، ہنری نے اس کا دلچسپ حل نکالا ، اس نے پانی میں نمک ملایا اور تمام ڈاکٹرز کوحکم دیا کہ اسے مارفین تسلیم کیا جائے ۔

(جاری ہے)

ڈاکٹرز نے مارفین کے ساتھ علاج شرو ع کر دیا ، نتائج حیران کن تھے ، کسی زخمی نے یہ تاثر نہیں دیا کہ اس پر دواء کاا ثر نہیں ہو رہا ، ہنری اور اس کے کولیگز نے فوجیوں کے بازو اور ٹانگوں تک کے آپریشن کیے مگر کسی نے درد کی شکایت نہیں کی ۔ ہنری کے لیے یہ نتائج حیران کن تھے ، اس تجربے سے اس نے علاج کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا جو بعد میں مستقل طریقہ علاج بن گیا۔

اس کا نام پلاسیبو ہے ، یہ ایسا طریقہ علاج ہے جس میں مریض کو فرضی دوائی دی جاتی ہیں اور اسے نفسیاتی طور پر صحت مند بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ابتداء میں یہ طریقہ علاج بہت محدود حد تک قابل استعمال تھا مگر آج اس سے بڑی بڑی بیماریوں کا علاج کیا جا رہا ہے ۔آج بخار سے ڈپریشن اور سرجری تک یہ طریقہ قابل استعمال ہے، ہسپتال میں محض چھوٹا سا کٹ لگا کر مریض کی سرجری کی جاتی ہے اور مریض اس سے ٹھیک ہو جاتا ہے ۔

پلاسیبو طریقہ میں جو ادویات استعمال کی جاتی ہیں ان میں کوئی فارمولا یا کیمیکل استعمال نہیں ہوتا بلکہ مریض کو محض تسلی دی جاتی ہے اور مریض اسی سادہ دواء سے ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ حال ہی میں فرانس نے ہومیو پیتھی طریقہ علاج پر پابندی عائد کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پلاسیبو طریقہ علاج ہے اور اس دواء میں کوئی کیمیکل استعمال نہیں ہوتا بلکہ مریض کی محض نفسیاتی تسکین کی جاتی ہے ۔

یورپ کے کئی دیگر ممالک میں بھی ہومیو پیتھی طریقہ علاج ممنوع ہے ۔
آج پلاسیبو طریقہ علاج میڈیکل سائنس کا تسلیم شدہ قانون ہے اور ہزاروں لاکھوں مریض اس طریقہ علاج سے شفا یا ب ہو رہے ہیں ، اسی اصول کو بنیاد بنا کر مغرب اور ملحدین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ خدا کا وجود بھی پلاسیبو ایفیکٹ کا نتیجہ ہے یعنی جنہوں نے خدا کو تسلیم کر لیا ہے ان کے دماغ پر اس کا اتنا اثر ہے کہ وہ بن دیکھے اس کو مان رہے ہیں اورایمان لا رہے ہیں اور جنہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا ان کے دماغ پر اس کا بالکل اثرنہیں اور وہ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔

اس اصول کو بنیاد بنا کر یہ نتائج نکالے جاتے ہیں کہ خدا کا وجود محض انسانی ذہن کی کارفرمائی ہے ورنہ اس کائنات میں خدا نام کی کسی ہستی کا وجود نہیں اور کائنات کا سارا نظام خوبخود چل رہا ہے ۔ مذہب محض ایک ڈھکوسلا ہے جو سماج اور نظم اجتماعی کو منظم کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے اور وحی کی کوئی حقیقت نہیں ۔ یہ وہ پورا مقدمہ ہے جو پلاسیبو ایفیکٹ کو بنیاد بنا کر مغربی معاشروں میں قائم کیا گیا ہے اوراس کے علمبردار مشرقی معاشروں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔

چونکہ یہ مقدمہ سائنسی مفروضوں کو بنیاد بنا کر قائم کیا گیا ہے لازم ہے کہ اس کا رد بھی سائنسی بنیادوں پر کیا جائے۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کائنات میٹر (مادہ ) سے بنی ہے اور میٹرکو جب ہم توڑتے ہیں تو ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب ہم اس کو مزید نہیں توڑ سکتے ، یہ سب سے چھوٹا ذرہ ایٹم کہلاتا ہے ، پھر اس ایٹم کے اندر الیکٹرون ، پروٹون اور نیوٹرون ہوتے ہیں ، پروٹون ایٹم کا بھی ایک حقیر اور معمولی سا ذرہ ہوتا ہے ، اس کی دریافت معروف برطانوی ماہر طبیعیات ارنسٹ ردرفورڈ کے نام ہے ، پروٹون کی خصوصیت ہے کہ جب اسے آبزرو کیا جا رہا ہو تو اس کا رویہ مختلف ہوتا ہے اور جب آبزرو نہ کیا جائے تو اس کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے ۔

جب تک پروٹون کی آبزرویشن ہوتی ہے اس کا وجود باقی رہتا ہے جیسے ہی ایک سیکنڈ کے لیے آبزرویشن ختم ہو یہ لہروں میں تحلیل ہو کر ختم ہو جاتا ہے ۔ ہماری یہ کائنات بھی پروٹون ، ایٹم اور میٹر سے وجود میں آئی ہے لہذا ہمیں ماننا پڑے گا کہ کوئی آبزرور ہے جو اس کائنات کو آبزرو(مشاہدہ ) کر رہا ہے اگر کوئی آبزرور نہ ہوتا تو اس کائنات کا رویہ کچھ اور ہوتا ، یہ کائنات لمحوں میں فضا میں تحلیل ہو جاتی ، اس کو چلانے والے قوانین درہم برہم ہو جاتے اور چند سیکنڈ میں یہ کائنات ملیا میٹ ہو جاتی ۔

اس لیے انسانوں کو یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس کائنات کا کوئی آبزرور ہے جو مسلسل اس کو آبزرو کر رہا ہے اور اسی آبزرویشن کی وجہ سے کائنات کا نظام منظم انداز میں چل رہا ہے۔اربوں کھربوں کہکشائیں کائنات کی وسعتوں میں منظم انداز میں تیر رہی ہیں ، نظام شمسی ، زمین ، سورج اور چاند مقررہ فاصلوں اور متعین رفتار سے مسلسل دوڑ رہے ہیں ، اگر ان کی رفتار ، مدار اور حرکت میں سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے بقدر بھی تبدیلی آ جائے تو یہ سب آپس میں ٹکر ا جائیں۔

قیامت کے دن جب وہ آبزرور انسانوں کے گناہوں اور کسی ایک بھی مسلمان نہ ہونے کی صورت میں اپنی آبزرویشن ہٹائے گا تو قیامت کی ہولناکیاں اس کائنات کا مقدر ٹھہریں گی اور پھر وہ ساری تباہیاں آئیں گی جن کا ذکر سورہ تکویر ، انفطار، انشقاق ، قیامہ اور بہت ساری احادیث میں آیا ہے ۔ اب اگلا سوال یہ ہے کہ خدا کے وجود کے اثبات کے بعد اس کی عبادت کیوں ضروری ہے ، جب ہم نے یہ تسلیم کر لیا کہ کوئی آبزرور ہے تو اس آبزرور کی توجہ حاصل کر نے کے لیے لازم ہے کہ اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین پر عمل کیا جائے اور یہی عبادت ہے ۔

جب ہم عباد ت کے مخصوص اعمال کرتے ہیں تو اس سے ہمیں آبزرور کی توجہ حاصل ہوتی ہے اور جب آبزرور ہماری طرف متوجہ ہوتا ہے تو ہماری قسمت بد ل جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے عبادت گزار لوگ خواہ کسی حال میں بھی ہوں خوش نصیب اور خوش حال ہوتے ہیں ۔ جب ہم کسی کو کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا خوش قسمت ہے تو یہ خوش قسمتی در اصل آبزرویشن ہی ہوتی ہے جو اس کو مخصوص اعمال کی بنا پر حاصل ہو ئی ہوتی ہے ۔

قرآن نے بھی کہا ہے جب مصیبت ، تکلیف یا پریشانی آئے تو نماز اور صبر کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کرو یعنی عبادت کے مخصوص اعمال سے آبزرور کی توجہ حاصل کرو ۔ جب ہم خوشی یا غمی میں شعوری یا لا شعوری طور پر آبزرورکی توجہ حاصل کر لیتے ہیں تو ہم اپنی منزل پا لیتے ہیں ۔ لہذا انسان حیاتیاتی اور نفسیاتی طور پربخوشی خدا کو ماننے اور اس کی توجہ حاصل کرنے پر مجبور ہیں ، یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جو معاشرے اور افراد اس فطرت پر چل رہے ہیں ان میں ڈپریشن، اینگزائٹی ، خود کشی اور بے سکونی کا رجحان کم ہے اور جو اس کو نہیں مانتے ان میں یہ بیماریاں ، خودکشی اور ڈپریشن کا رجحان کہیں زیادہ ہے ۔

فطرت کسی بھی چیز کی ہو بقا اس پر چلنے میں ہی ہوتی ہے تو سوچیں انسان اپنی فطرت سے بغاوت کر کے کیسے خوش اور کامیاب ہو سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :