
خدا کو ماننا کیوں ضروری ہے!
منگل 28 ستمبر 2021

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
آج پلاسیبو طریقہ علاج میڈیکل سائنس کا تسلیم شدہ قانون ہے اور ہزاروں لاکھوں مریض اس طریقہ علاج سے شفا یا ب ہو رہے ہیں ، اسی اصول کو بنیاد بنا کر مغرب اور ملحدین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ خدا کا وجود بھی پلاسیبو ایفیکٹ کا نتیجہ ہے یعنی جنہوں نے خدا کو تسلیم کر لیا ہے ان کے دماغ پر اس کا اتنا اثر ہے کہ وہ بن دیکھے اس کو مان رہے ہیں اورایمان لا رہے ہیں اور جنہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا ان کے دماغ پر اس کا بالکل اثرنہیں اور وہ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔ اس اصول کو بنیاد بنا کر یہ نتائج نکالے جاتے ہیں کہ خدا کا وجود محض انسانی ذہن کی کارفرمائی ہے ورنہ اس کائنات میں خدا نام کی کسی ہستی کا وجود نہیں اور کائنات کا سارا نظام خوبخود چل رہا ہے ۔ مذہب محض ایک ڈھکوسلا ہے جو سماج اور نظم اجتماعی کو منظم کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے اور وحی کی کوئی حقیقت نہیں ۔ یہ وہ پورا مقدمہ ہے جو پلاسیبو ایفیکٹ کو بنیاد بنا کر مغربی معاشروں میں قائم کیا گیا ہے اوراس کے علمبردار مشرقی معاشروں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ چونکہ یہ مقدمہ سائنسی مفروضوں کو بنیاد بنا کر قائم کیا گیا ہے لازم ہے کہ اس کا رد بھی سائنسی بنیادوں پر کیا جائے۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کائنات میٹر (مادہ ) سے بنی ہے اور میٹرکو جب ہم توڑتے ہیں تو ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب ہم اس کو مزید نہیں توڑ سکتے ، یہ سب سے چھوٹا ذرہ ایٹم کہلاتا ہے ، پھر اس ایٹم کے اندر الیکٹرون ، پروٹون اور نیوٹرون ہوتے ہیں ، پروٹون ایٹم کا بھی ایک حقیر اور معمولی سا ذرہ ہوتا ہے ، اس کی دریافت معروف برطانوی ماہر طبیعیات ارنسٹ ردرفورڈ کے نام ہے ، پروٹون کی خصوصیت ہے کہ جب اسے آبزرو کیا جا رہا ہو تو اس کا رویہ مختلف ہوتا ہے اور جب آبزرو نہ کیا جائے تو اس کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے ۔ جب تک پروٹون کی آبزرویشن ہوتی ہے اس کا وجود باقی رہتا ہے جیسے ہی ایک سیکنڈ کے لیے آبزرویشن ختم ہو یہ لہروں میں تحلیل ہو کر ختم ہو جاتا ہے ۔ ہماری یہ کائنات بھی پروٹون ، ایٹم اور میٹر سے وجود میں آئی ہے لہذا ہمیں ماننا پڑے گا کہ کوئی آبزرور ہے جو اس کائنات کو آبزرو(مشاہدہ ) کر رہا ہے اگر کوئی آبزرور نہ ہوتا تو اس کائنات کا رویہ کچھ اور ہوتا ، یہ کائنات لمحوں میں فضا میں تحلیل ہو جاتی ، اس کو چلانے والے قوانین درہم برہم ہو جاتے اور چند سیکنڈ میں یہ کائنات ملیا میٹ ہو جاتی ۔ اس لیے انسانوں کو یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس کائنات کا کوئی آبزرور ہے جو مسلسل اس کو آبزرو کر رہا ہے اور اسی آبزرویشن کی وجہ سے کائنات کا نظام منظم انداز میں چل رہا ہے۔اربوں کھربوں کہکشائیں کائنات کی وسعتوں میں منظم انداز میں تیر رہی ہیں ، نظام شمسی ، زمین ، سورج اور چاند مقررہ فاصلوں اور متعین رفتار سے مسلسل دوڑ رہے ہیں ، اگر ان کی رفتار ، مدار اور حرکت میں سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے بقدر بھی تبدیلی آ جائے تو یہ سب آپس میں ٹکر ا جائیں۔ قیامت کے دن جب وہ آبزرور انسانوں کے گناہوں اور کسی ایک بھی مسلمان نہ ہونے کی صورت میں اپنی آبزرویشن ہٹائے گا تو قیامت کی ہولناکیاں اس کائنات کا مقدر ٹھہریں گی اور پھر وہ ساری تباہیاں آئیں گی جن کا ذکر سورہ تکویر ، انفطار، انشقاق ، قیامہ اور بہت ساری احادیث میں آیا ہے ۔ اب اگلا سوال یہ ہے کہ خدا کے وجود کے اثبات کے بعد اس کی عبادت کیوں ضروری ہے ، جب ہم نے یہ تسلیم کر لیا کہ کوئی آبزرور ہے تو اس آبزرور کی توجہ حاصل کر نے کے لیے لازم ہے کہ اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین پر عمل کیا جائے اور یہی عبادت ہے ۔ جب ہم عباد ت کے مخصوص اعمال کرتے ہیں تو اس سے ہمیں آبزرور کی توجہ حاصل ہوتی ہے اور جب آبزرور ہماری طرف متوجہ ہوتا ہے تو ہماری قسمت بد ل جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے عبادت گزار لوگ خواہ کسی حال میں بھی ہوں خوش نصیب اور خوش حال ہوتے ہیں ۔ جب ہم کسی کو کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا خوش قسمت ہے تو یہ خوش قسمتی در اصل آبزرویشن ہی ہوتی ہے جو اس کو مخصوص اعمال کی بنا پر حاصل ہو ئی ہوتی ہے ۔ قرآن نے بھی کہا ہے جب مصیبت ، تکلیف یا پریشانی آئے تو نماز اور صبر کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کرو یعنی عبادت کے مخصوص اعمال سے آبزرور کی توجہ حاصل کرو ۔ جب ہم خوشی یا غمی میں شعوری یا لا شعوری طور پر آبزرورکی توجہ حاصل کر لیتے ہیں تو ہم اپنی منزل پا لیتے ہیں ۔ لہذا انسان حیاتیاتی اور نفسیاتی طور پربخوشی خدا کو ماننے اور اس کی توجہ حاصل کرنے پر مجبور ہیں ، یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جو معاشرے اور افراد اس فطرت پر چل رہے ہیں ان میں ڈپریشن، اینگزائٹی ، خود کشی اور بے سکونی کا رجحان کم ہے اور جو اس کو نہیں مانتے ان میں یہ بیماریاں ، خودکشی اور ڈپریشن کا رجحان کہیں زیادہ ہے ۔ فطرت کسی بھی چیز کی ہو بقا اس پر چلنے میں ہی ہوتی ہے تو سوچیں انسان اپنی فطرت سے بغاوت کر کے کیسے خوش اور کامیاب ہو سکتا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.