تین صحافی اور ریاست کا چوتھا ستون‎

جمعرات 14 فروری 2019

Muhammad Nabeel

محمد نبیل

چند روزقبل میرے استاد نے مجھے مشورہ دیا کہ اگر تم صحافت کے شعبے میں جگہ اور ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپناروز آدھا دن کسی صحافی کے ساتھ پریس کلب پر گزارو یا کسی صحافتی ادارے میں انٹرنشپ حاصل کرلو، اس سے تم کو یہ فائدہ ہوگا، جب تم اپنی یونیورسٹی مکمل کرو گے تو تم کسی بھی صحافی ادارے میں باآسانی ملازمت حاصل کر کے اپنی عملی زندگی شروع کر سکتے ہو۔

استاد کا مشورہ مانتے ہوئے میں نے مختلف صحافتی اداروں میں درخواست جمع کر واناشروع دی ۔ جب کہیں سے کوئی جواب نہیں ملا ۔ تو چاچو کے ایک دوست جو خودبھی پیشے سے ایک صحافی ہیں کی صحبت اختیار کرلی۔چاچو کے دوست جو سینئرصحافی اور ساتھ ساتھ پریس کلب کے گورنگ بورڈ کے رکن بھی ہیں سے بہت سے معملات کے بارے میں رہنمائی بھی ملی ۔

(جاری ہے)

اکژو بیشترہماری بحث ملکی وغیر ملکی سیاست، شدت پسندی،دہشت گردی کی ابتداء اور اس کے متاثرہ ممالک ،ریاست کو چلانے کے نظام،سوشل ازم،کیپیٹل ازم،نیشنل ازم،کمیونزم،انسانی حقوق کی خلاف ورزی،سست رفتارجوڈیشل سسٹم اور اصلات کے موضوع زیرے بحث رہتے تھے۔

انکل پرویز جو میرے چاچو کے دوست اور سینئرصحافی ہیں کہ دوست بھی اکثر و بیشتر ہماری محفل کا حصہ ہواکرتے تھے۔چند روز قبل ان کو کسی نے فون کال کرکے پریس کانفرنس میں انوائٹ کیا ۔صدیقی صاحب نے پریس کانفرنس میں جانے کے لئے اجازت چاہی توانکل پرویز نے مجھے بھی صدیقی صاحب جو ایک معروف اخبار کے سینئر ریپورٹر ہیں کے ساتھ پریس کانفرنس میں جانے کا مشورہ دیا اور کہاکہ آپ کہ پاس فیلڈورک کا مشاہدہ کرنے کا ایک اچھا موقع ہے ۔

انکل کی بات مانتے ہوئے میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور صدیقی صاحب کے ساتھ فیلڈ ورک کیلئے چلاگیا ۔
پریس کانفرنس میں پولس نے تالا توڑ چوروں کا گروہ بے نقاب کیا اور روایتی انداز میں فوٹوگرافی کروائی ۔فوٹو سیشن کے بعدمیرے سینئرساتھی نے ایس ایچ او صاحب کومبارک باد دی ،ایس ایچ او صاحب نے مبارک باد کے جواب میں صدیقی صاحب کو کہا کہ آپ کا بہت شکریہ بس کوشش کریں کہ کل کے اخبار میں خبر پہلے صفحے پر لگ جائے اور 1500 روپے ہاتھ میں تھمادئیے ۔

صدیقی صاحب کے اس عمل پر میں نے پریس کلب پہنچ کر شکوے کا اظہارکرتے ہوئے کہا یہ غلط اور غیر اخلاقی عمل ہے ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہر معاملات سے عوام کو آگاہ کریں۔پرویز انکل اور صدیقی صاحب نے میرے شکوے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہا ں آ پ صحیح کہہ رہے ہیں لیکن ہم صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی ہیں ۔

ہماری بھی اپنی نجی زندگی ہے ، بس ہم اسی ہی کے آگے یہ سب کرنے پر مجبور ہیں ۔
ہمارے ملک میں صحافت ہمیشہ کی طرح نازک حالات سے گزر ہی ہے ملک میں صحافیوں کو کئی کئی ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی ، ہزاروں کی تعداد میں صحافی اداروں سے نکالے جاہے ہیں ،یہی وجہ ہے جو ہم یہ کام کرنے پر مجبور ہیں اوریہ صحافیوں کا معاشی قتل عام ہے۔ 
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے کہا کہ ان سارے معاملات کا ذمہ د ار آپ کس کو سمجھتے ہیں ،پرویز انکل نے جواب دیا ،کہ میں سمجھتا ہوں اس سارے حالات کا ذمہ دار سرمایہ دارانہ نظام اور حکومتی پولیسیاں ہیں ،صحافت ریاست کا چوتھاستون ہے ،اس طرح یہ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ ہمارے لئے مستحکم اور مضبوط قانون سازی کرے تاکہ ہمارا معاشی استحصال ہونے سے بچ سکے ۔

صدیقی صاحب نے موقع جان کر اپنی بات کا اظہار اور اپنے پیشے سے غداری کا داغ دھونے کے لئے کہا کہ میں ملک کے ایک بڑے الیکٹرونک صحافتی ادارے کے ساتھ سب سے بڑے شہر میں کام کر چکا ہوں لیکن انہی سب مجبوریوں کی وجہ سے مجھے واپس اپنے شہر آنا پڑا اور اب بھی میرے اخبار ی ادارے نے 3 ماہ کی تنخواہ ادا نہیں کی ، بس ہربار انتظامیہ کاایک ہی موقف ہے کہ ہمارے پاس اشتہارات کی کمی ہے اس وجہ سے ہم تنخواہ ادا نہیں کرپارہے۔

پرویز انکل نے بھی اس بات پر اظہار کیا کہ ہمیں بھی خا ندان کا پیٹ پالنا ہے،ہم اس وقت حکومت کے سامنے احتجاج اور اس عمل کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ۔
صدیقی صاحب نے اس پر مسکراتے ،شرمندنگی کا اظہار کرتے اور دبی دبی آواز میں ایک تاریخی جملہ کہا :یہ تاریخ کا المیہ ہے ”صحافی سب کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں مگرصحافیوں کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا بس قلم کار اپنے ہی خون کی سیاہی سے اپنے زخموں کی داستان لکھ رہا ہے“۔

اگرچہ صدیقی صاحب نے اپنے پیشے سے غداری کی مگریہ تاریخی جملہ بھی صدیقی صاحب نے ادا کیا ۔
مجھے پریس کلب اور صحافت سے کنا راکشی کئے ہوئے کچھ ہی وقت گزرا ہے ،میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ میرا حق ہے ،میں حق کے لئے آواز اٹھانے والوں کے حق میں آواز اٹھا ؤ ہمیں ہمیشہ صحافوں کی آواز کی ضرورت ہوتی ہے مگر آج صحافیوں کو ہماری آواز کی ضرورت ہے میں ادھر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ صحافی ہمیشہ سے جمہوری حکومت کے حق میںآ واز اٹھاتے ہیں اور آج پاکستان کی جمہوری حکومت کو یہ چاہئے کہ وہ بھی صحافیوں پر ظلم اور معاشی قتل عام پر توجہ دے اور پالیمنٹ،سینٹ میں آزاد نہ، مستحکم صحافت کیلئے قانون سازی کر کے صحافی برادری کا قرض ادا کرے ۔

اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمیں مستقبل میں نہ صرف تاریخ کا ستم سہنا پڑے گا بلکہ تاریخ کبھی بھی ہمیں معاف نہیں کریگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :