عقل کی معراج دلیل ،عشق کی معراج محبوب!

پیر 17 دسمبر 2018

Muhammad Shehroz

محمد شہروز

پچھلے دنوں فیصل آباد میں ایک بزرگ سے ملاقات کا اتفاق ہوا ان کے بحرعلم کو جوش میں دیکھ کر میں نے بھی ایک سوال پوچھ لیا ،”حضور ! عقل اور عشق میں اتنی رقابت کیوں ہے ؟“وہ میرے چہرے سے آشنا نہیں تھے ا س لئے پہلے مجھے غور سے دیکھا ،مسکرائے اور پھر بولے ،”بیٹا عقل کی معراج دلیل جبکہ عشق کی معراج محبوب ہے عقل سرابھارنے کا نام ہے ،عشق سر جھکانے کا درس دیتا ہے عقل منطق اور پریشان کن سوالا ت کا نام ہے جبکہ عشق اطمینان بھری خاموشی اور بس ایک چہرے کو تکتے رہنے کا نام ہے “ان کا ایسا دقیق جواب سن کر مجھے ان کے ارد گرد لوگوں کے جھنڈ کی وجہ معلوم ہوگئی گرمئی شوق سوال نے پھر زور پکڑا تو میں نے پھر پوچھا کہ ”حضور ! لیکن ہمارا معاشرہ عشق کرنے والوں کو بدعتی کیوں کہتا ہے ؟مشرک کیوں سمجھتا ہے ؟حد سے گزرنے والوں میں تعبیر کیوں کرتا ہے ؟
بابا جی نے پھر میری طرف دیکھا اور فرمایا ،”کیونکہ ہمارا معاشرہ عقل کا مرید ہے عقل کب سمجھ سکتی ہے کہ جہاں محبت ہو گی وہاں بدعت بھی ہوگی۔

(جاری ہے)

!!کیونکہ محبت تو محبوب کو نئے انداز میں منانے کا نام ہے ہر عاشق کچھ نیا کرنے کی تڑپ رکھتا ہے پھر دونوں کو متضاد کیسے سمجھا جائے ؟“
بدعت کے متعلق یہ نئی Explanationسن کر میں نے مزید پیاس ظاہر کی تو بابا جی بولے ”شریعت میں بدعت کی گنجائش نہیں ہے لیکن عشق کی اس کے بغیر تکمیل ممکن نہیں ہے عشق سجتا ہی بدعت سے ہے آپ سب نے بخاری کی وہ حدیث پڑھ رکھی ہے کہ آقا کئی دنوں سے علیل تھے مسجد نبوی میں نماز کی ادائیگی کیلئے نہیں آئے تھے پھر ایک دن دوران نماز اپنی کھڑکی کھول کر مسجد نبوی میں صحابہ کرام  کو دیکھا ،صحابہ کرام  کو جب محسوس ہوا کہ آقا ہمیں تک رہے ہیں تو نماز کو توڑ کر حضور کی طرف رخ پھیر لئے ۔

۔پُتر! شریعت تو کہتی ہے کہ عبادت صرف خدا کیلئے ہے لیکن وہاں دیدار مصطفی کو نماز پر فوقیت دی گئی ۔۔کس نے دی ؟جو ہم سے آپ سے بڑھ کر شریعت کو جانتے سمجھتے تھے اسی طرح حضرت مولا علی  کی گود میں روح کائنات سررکھ کر آرام فرما رہے تھے مولا علی مسلسل ان کا چہرہ تک رہے تھے نماز عصر کا وقت گزرتا جارہا تھا ۔مگر بجائے حضور کو نماز کیلئے جگانے کے،انہو ں نے نماز قضا کر دی ۔

۔دیدار قضا نہ کیا ۔۔اب کونسی شریعت نماز قضا کرنے کی اجازت دیتی ہے ؟لیکن پُتر!جب دل میں عشق کا بھانبھڑجل رہا ہو تو پھر ایسی بدعتیں شریعت کی خلاف ورزی تصور نہیں ہوتی۔۔بلکہ ایسی بدعت ہی سورج کے واپس پلٹ آنے کی وجہ بنتی ہے ۔ایک مرتبہ حضور نے اپنے جسم مبارک کا خون نکلوایا اور ایک صحابی  کو یہ دے کر فرمایا کہ اسے کسی ایسی جگہ پر رکھ دو کہ جہاں کوئی اسے دیکھ نہ سکے ۔

اُس صحابی  نے فوراً وہ سارا خون پی لیا اب مجھے بتائیں کہ کونسی شریعت ہے جو خون پینے کی اجازت دیتی ہے ؟لیکن کیونکہ خون پینے کی اس بدعت کے پیچھے عشق رسول تھا تو حضور نے اس صحابی نے فرمایا ”اگر میرا خون تمہارے جسم میں داخل ہوچکا ہے تو سنو! اب جہنم تمہارے جسم کو جلانا اپنے اوپر حرام کر چکی ہے ۔حضرت اویس قرنی  نے کیا سوچ کر اپنے سارے دانت شہید کر دیئے؟کیا آپ ان سے زیادہ شریعت کو جانتے ہیں ؟کونسی شریعت خود پر ظلم کی اجازت دیتی ہے ؟مگر کیونکہ اس بدعت کی بنیاد بھی عشق رسول تھی اس لئے زیارت رسول کے بغیر ہی آپ  کو صحابی کا درجہ دے دیا گیا۔

دیکھ میرا پُتر! تیرا نام کیا ہے ؟میں فوراً بولا”جی شہروز“ہاں تو شہروز پُتر جب مکہ کے سرداروں نے جنگ کا ارادہ کیا تو ایک جاسوس مدینہ کی طرف بھیجا اس جاسوس نے واپس آکر اپنے سرداروں کو جو کچھ کہا وہ آپ کو سمجھا دیگا کہ صحابہ کرام عقل کے پیروکار تھے یا عشق کے ؟وہ جاسوس کہتا ہے کہ ان 1500لوگوں سے جنگ مت کرنا وہ تو بالکل پاگل ہیں جب محمد اپنے بال کٹواتے ہیں تو وہ ارد گرد جمع ہو کر بال اکٹھا کرنا شروع کردیتے ہیں ایک بھی بال زمین پر نہیں گرنے دیتے ۔

جب محمد وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کا پانی ۔۔۔استعمال شدہ پانی ۔۔۔۔اپنے چہروں پر مل لیتے ہیں ۔اب ”بدعتیوں“سے جنگ مت کرنا ۔جو اپنے نبی کے بال ،انکے وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے ،جب تم نے اس پر تلوار اٹھائی تو وہ تمہارا کیا حشر کریں گے ؟
شہر وز پُتر اُس جاسوس نے کہیں صحابہ کی عبادتوں کا ذکر نہیں کیا۔وہ صحابہ کی نمازوں اور تلاوتوں سے متاثر ہو کر نہیں آیا تھا ۔

بلکہ وہ تو صحابہ کرام  کی ”بدعتوں “سے خوف کھا کر آیا تھا ورنہ شریعت میں تو استعمال شدہ پانی کے دوبارہ استعمال کرنے پر ممانعت ہے بے شک وہ طاہر ہوتا ہے لیکن مطاہر نہیں ہوتا ۔اور قرآن مجید میں کہاں لکھا ہے کہ حضور کے بال ،ناخن ،وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دینا؟یہ سب اس لئے تھا کہ وہ عاشق بھی عشق میں کچھ نیا کرنا چاہتے تھے ۔اور اسی عشق کے باعث اُن کے درجات بلند ہوئے ۔

بابا جی خاموش ہوئے تو میں نے پھر سوال کیا۔”لیکن باباجی میں نے تو سنا ہے کہ حضور کی ذات عقل اور عشق دونوں کا منبع ہے ۔مرکز ہے۔ originہے ۔تو پھر صحابہ کرام  نے عقل سے کام کیوں نہیں لیا؟“
بابا جی ایک دم سے مسکرادیئے اور کہنے لگے ۔پُتر دربارِ محمدی عقل اور عشق دونوں کی معراج کا نام ہے اس لئے آج مغرب والے عقل کو پیمانہ بنا کر حضور کی ذات کے گرویدہ ہورہے ہیں لیکن جو کلمہ پڑھ چکے ہیں ان کی شان تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ حضور کے ہم جیسے ہونے کا اقرار کریں لیکن اسرار اس بات پر کریں کہ صرف انکی ذات ہی عرش پر گئی ۔

Time Travelکیا ۔Theory of Relativityکی بنیاد رکھی ۔اپنے لعاب دہن سے شفا دی ۔اس بات کا اقرار کریں کہ حضور کو بھی پسینہ آتا تھا مگر اسرار اس بات پر کریں کہ صرف ان کے پسینے سے خوشبو پھوٹتی تھی۔اقرار اس کا کریں کہ وہ بھی ہماری طرح چلتے پھرتے تھے لیکن اسرار اس بات کا کریں کہ یہ صرف حضور کا مقام تھا کہ وہ جس راستے سے بھی گزرتے وہ معطر ہوجاتا ۔پُتر،مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کا صرف اقرار کرے جو commonہیں لیکن عمر بھر ذکر ان چیزوں کا کرے اس صفات کا کرے جن میں آقا ہم سے مقدم ہیں “
عشق ،عقل اور بدعت پر ایسی گفتگو زندگی میں پہلی مرتبہ سنی تھی شایدآپ بھی پہلی مرتبہ ایسا پڑھ رہے ہوں ۔

یہ تحریر بہت سے لوگوں کو سیخ پا بھی کریگی اور بہت سوں کو بھولا ہوا سبق دوبارہReviveکرا کے بے چین بھی کریگی ۔لیکن اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج اُمت میں دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں ایک طبقہ وہ ہے جو ہرشے کو عقل سے پرکھتا ہے وہ لوگ بھی اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں اور وہ طبقہ بھی اپنی جگہ بجا ہے جو عقل کی بجائے عشق کو پیمانہ سمجھتا ہے دونوں طبقات سے گزارش ہے کہ اپنے دلوں میں ایک دوسرے کی گنجائش پیدا کریں جو محبت رسول میں انگوٹھے چومتے ہیں ،میلاد مناتے ہیں ،درود پڑھتے ہیں ،وہ بھی محبت میں اور ادب میں ایسا کرتے ہیں اور جو لوگ ان پر تنقید کرتے ہیں وہ بھی بغض رسول میں نہیں بلکہ اس خوف سے ایسا کرتے ہیں تاکہ دین میں خرافات پیدا نہ ہوجائیں ۔

لہذ ا ایک دوسرے کو سمجھیں اسلام دین امن ہے اسے فتووں اور الزامات کادین مت بنائیں ۔عقل والوں کیلئے دعا کریں کہ خدا ان کے وجدان میں اضافہ فرمائے اور عشق والوں کیلئے دعا فرمائیں کہ خدا ان کی آگ کو مزید بڑھا دے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :