کورونا وائرس اور معاشی بحران

جمعرات 18 جون 2020

Mujahid Khan Tarangzai

مجاہد خان ترنگزئی

کسی بھی ناگہانی یا وباء کی صورت میں اس کے دور رس نتائج کا تخمینہ لگانا تقریباً نا ممکن ہے۔ہمیں ابھی تک کورونا وائرس کی ساخت اور کام کرنے کی صلاحیتوں کا مکمل ادراک نہیں ہے، نہ ہی یہ معلوم ہے کہ بظاہر صحت مندنظر آنے والے لوگ کس رفتار سے اور کیسے باقی لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔یہ وائرس بچوں پر اثر انداز کیوں نہیں ہوتا اور کس رفتار سے پھیل رہا ہے۔

مزید اس کی وجہ سے حکومتیں جو اقدامات اُٹھارہی ہیں ان کا اثر کیا نکلے گااور لوگ اور کاروبار کیا ردعمل دیں گے؟
اقتصادی ماہرین بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات کسی بھی مالک کی معیشت کو 3 طرح سے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اول اِن کا اثر براہ ِ راست سرمایہ دار طبقہ کے اعتماد پر ہوتا ہے اور وہ ملکی معیشت میں سرمایہ لگانا چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی نئے منصوبے شروع نہیں کرتے بلکہ پہلے سے موجود ہ منصو بہ جات کو بھی مختصر کردیتے ہیں۔

(جاری ہے)

دوسرے طریقے میں اس کا بالواسطہ اثر عام آدمی کے اعتماد اور مزید کمانے کی اُمید پر پڑتا ہے اور وہ صرف انہتائی ضروریات زندگی کے سوا ہر قسم کے خرچ سے ہاتھ کیھنچ لیتا ہے۔اور تیسری طرح کا اثر براہِ راست اشیا اور افرادی قوت کی سپلائی پر پڑتا ہے۔اگر آپ کے پاس خام مال نہیں ہوگا یااس سے بنائے جانے والی مصنوعات کے لئے افرادی قوت نہیں ہوگی تو مصنوعات مارکیٹ تک نہیں پہنچیں گی اور آپ گاہگ کی ڈیمانڈکو پورا نہیں کرسکیں گے۔

اِن تینوں طریقوں سے ملکی معیشت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اسے شاک جیومیٹری کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اقتصادی شاک یاتوVشکل کا ہوگا یا U  یاپھرLکی شکل کا۔
shape۔Vکی صورت میں کاروباری سرگرمیاں ایک مختصر مدت (معاشی بحران)کے لیے بہت کم ہوجاتی ہے مگر جیسے ہی بحران ختم ہوتا ہے (مثلاً وبا کا ختم ہوجانا یا ویکسین کی فراہمی)تو مارکیٹ پھر سے اپنی پہلی پوزیشن پر واپس لوٹ جاتی ہے۔

کورونا وائرس  کے معاشی نقصان کی شکل بھی کچھ اس طرح کی بنتی نظر آرہی ہے کہ لوگ اور سرمایہ دار کچھ مہینوں کے لیے اپنے منصوبے اور اخراجات کو روک لیں گے مگر اس سے کوئی اتنا ذیادہ مستقل نقصان نہیں ہوگا۔1918 ء کے ایشین فلو،1968ء کے ہانگ کانگ فلو،2003ء کے SARS اور2008ء کے معاشی بحران کے بعد بھی معیشت نےshape۔vبنایا تھا۔ہر ملک میں اس کا دوانیہ اور شدت مختلف ہوسکتی ہے مگر اس سے ملتی جلتی ہی بنے گی۔


shape۔Uبحران کی صورت میں معیشت کو بحران سے پہلے والی صورت میں آنے تک کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ وہ بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ اقتصادی ماہرین ترقی پذیر ملکوں میں کورونا وائرس کے بعد کی معیشت کو ایسے ہی دیکھتے ہیں۔اس صورت میں کچھ معاشی آؤٹ پُٹ کا مستقل نقصان ہوجاتا ہے۔
shape۔Lسب سے بُرا shapeہے جس میں ملکی معیشت ایک طویل عرصے تک بحران کا شکار رہتی ہے۔

معیشت میں کئی Structural Damage آجاتا ہے۔سپلائی چین،افرادی قوت،سرمایہ کاری،لیبر مارکیٹ،پیداواری صلاحیت سب انحطاط کا شکار ہوجاتی ہیں۔اس کا دوانیہ کچھ ماہ سے بڑھ کر کئی سا لوں تک چلا جاتا ہے اور یہRecession سے ڈیپریشن بن جاتا ہے جیسے کہ 1918 ء  کے اسپینش فلو کے بعد کوئی 10 سال تک گریٹ ڈپریشن چلتا رہا۔ یہاں اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ ایک ہی مصیبت یا بحران کا نیتجہ مختلف ہوسکتا ہے۔

مثال کے طور پر 2008ء کے معاشی بحران کے بعد کینیڈا میں معاشی صورتحال shape۔vبنی،وہاں کے بینک اس سے متاثر نہیں ہوسکے۔امریکا میں shape۔u سے نکلتے نکلتے 2سال لگے تو یونان میں shape۔Lکہ وہ آج تک اس بحران کی سنگینی سے باہر نہیں آسکا۔
وباء کے پھیلنے کے درمیان معاشی استحکام کی باتیں کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص جلتے گھر میں نیا فرنیچرڈالنے کا مشورہ دے۔

ہم بحثیت قوم نہ تو مکمل لاک ڈاؤن برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا صحت کا نظام سارے مریضوں کو سنبھالنے کا متحمل ہوسکتا ہے۔اس پریشان کن صورتحال میں یا تو ہم سوئیڈن کاماڈل اپنالیتے اور کوئی لا ک ڈ اؤن نہیں کرتے،باشعور لوگ اپنی حدتک اپنابچاؤخود کرتے اور معاشی سرگرمیاں جاری رہتیں یا ہم ووہان کا ماڈل اپناتے اور متاثرہ علاقے اور لوگوں کو مکمل لاک ڈاؤن اور قرنطینہ میں بھیج دیتے اور انہیں اشیائے خوردونوش مہیا کرتے کہ ایک بار اس وباء کا پھیلنے کا عمل رک جاتا تو معیشت کو جلد سنبھالادیا جاسکتا۔

مگر ہم نے نام نہاد لاک ڈاؤن کیا۔مسجد یں بند کردیں مگر سیاسی پارٹیاں،لوگوں کا میل جول سب چلتا رہا اور وائرس پھیلتا چلا گیا۔ کاروبار کے بند ہوجانے سے غربت اور معاشی بحران نے الگ سر اُٹھالیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :