اولاد کی تربیت والدین کی اہم ذمہ داری

منگل 14 دسمبر 2021

Mujahid Khan Tarangzai

مجاہد خان ترنگزئی

مدرسہ تعلیم القرآن للبنین والبنات پشاور کے علاقے افغان کالونی میں واقع دینی و قرآنی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ایک جا نا پہنچانا ادارہ ہے۔ الحمدا للہ گزشتہ 14سالو ں سے اس ادارے میں بندہ ناچیز نوجوانوں کے اصلاح وتربیت کے خدمت میں مصروف عمل ہے۔
مدرسہ میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کا بھی باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے۔

تاکہ طلباء وطالبات دینی وقرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ بھی بنیں اور دین اسلام، ملک خداد پاکستان اور معاشرے کے اصلاح میں اپنے حصے کا فریضہ بطریقہ احسن ادا کریں۔
مدرسہ کے ہم نصابی سرگرمیوں میں گزشتہ روز سالانہ یوم والدین و تقسیم انعامات تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے تھا۔ جس کے چیدہ چیدہ پہلوؤں قارئین کی خدمت میں گوش گزار کرانا چاہتا ہوں۔

(جاری ہے)


پروگرام کا باقاعدہ آغاز نماز مغرب کے فوراً بعد ہوا۔ ناظم سٹیج نے جامع الفاظ میں مدرسہ تعلیم القرآن کا تعارف، وژن اور مشن واضح کیا اور اس کے بعد تلاوت کلام پاک کیلئے قاری محمد خان صاحب کو دعوت دی۔ قاری صاحب نے سورۃ لقمان کے اُن آیات مبارکہ کی تلاوت فرمائی جسمیں حضرت لقمان حکیم اپنے بیٹے کو ناصحانہ باتیں بتارہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد نظم کیلئے قاری اسداللہ صاحب کو دعوت دی گئی۔

قاری صاحب نے والد محترم کے محنت وعظمت پر درد مندانہ کلام پیش کیا۔ جس کے سُننے سے بندہ ناچیز اور اکثر والدین کو اپنے اپنے والدین کی   سنہری یادوں کی وجہ سی آنکھوں سے آنسوؤں کے موتی بہنے لگیں۔ نظم کے بعد راقم الحروف نے اولاد کی تربیت اور والدین کی ذمہ داریوں کے حوالے سے جامع گفتگو کیا؛ راقم الحروف نے اول والدین کے حقوق کے حوالے سے جامع خطاب میں فرمایا کہ
قرآن کریم میں اللہ رب العزت اپنے حق کے بیان کے بعد حقوق العباد میں اول والدین کا حق بیان فرماتے ہیں، کہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرو۔

والدین کا ذیادہ خیال رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے کیلئے تخلیق جو کی ہے اس میں والد اور والدہ کا واسطہ بنایا ہے۔ اسلیئے توحید کے بعد سب سے پہلی ذمہ داری اہل ایمان پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔
اب جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہیں اسی طرح والدین پر اولاد کے بھی حقوق اور ذمہ داریاں عائد ہیں۔

اللہ تعالیٰ سورۃ تحریم آیت نمبر 6 میں فرماتے ہیں ”اے  مومنوں خود کو بھی جہنم کے آگ سے بچو اور اپنے اہل وعیال کو بھی بچاؤ“۔ مطلب صرف خود کو بچانا یا پرہیز گار بننا مقصو د نہیں بلکہ اپنے گھر والوں کا بھی فکر کروگے۔  
اب یہ تو اہم ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہیں کہ اولاد کو صحیح نہج پر گامزن کرکے بہترین تعلیم و تربیت دلاکر ہی آگ سے بچایا جاسکتا ہے۔

اب اگر کوئی کہے کہ جی ہمارے بچے تو راہ راست پر نہیں آتے ہم نے تو بہت کوشش کی۔ تو جواب یہ ہے کہ اس سورۃ تحریم کے آیت میں فرمایا گیا ہے کہ آگ سے اولاد کو بچاؤ تو مطلب جس طرح آگ سے بچایا جاسکتا ہے مثلاً  آپ ایک انتہائی اہم کام میں مصروف ہے جسمیں میں آپ کا کروڑوں کا فائدہ ہوں اور آپ کا چھوٹا ناسمجھ بچہ جلنے والی آگ کی طرف جارہا ہے اور اس کو ہاتھ لگاتا ہے، تو اس وقت آپ بے اختیار اپنے اہم اور ضروری کام خواہ کروڑوں کا نقصان بھی ہوجائے آپ اس کو چھوڑ کر بچے کے بچانے کی طرف لپکتے ہیں بالکل اسی طرح کہ جسطرح سے معصوم بچے کو آگ سے بچانے کیلئے آپ اپنی ضروری کام کو چھوڑ سکتے ہوں اسی طرح بچے کو بُری ماحول سے بُرے دوستوں، غلط عادات، بے دینی و بے راہ روی سے بچانے اور صحبت صالح، و اچھی تعلیم و تربیت کی مکمل کوشش کروگے اور  بچوں کی تربیت کیلئے وقت نکالو گے۔


ماہرین تربیت فرماتے ہیں کہ تعمیر شخصیت کے حوالے سے بچوں کے دل پر اثر انداز ہونے والے دو عوامل ہیں جو بچے کے سنورنے یا بگڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ (1) والدین (2)  
ماحول۔ ہر بچہ اول جن دو شخصیتوں سے متاثر ہوتا ہے وہ اس کے والدین ہیں۔ بچہ فطرۃ" نقال ہوتا ہے۔ اگر والدین نیک ہو تو بچہ بھی نیک اور اگر والدین بد ہو تو بچہ بھی برُی عادات لیتا ہے۔

بچے کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہے اس پر جو بھی لکھو گے وہ نقش ہوتا جاتا ہے۔ لہذا بچے کی تربیت شروع ہی سے اچھی کرنی چاہیئے اور اس کے لیئے والدین بھی اپنے عادات وکردار پر محنت کریں۔
والدین کے ذمہ بچے کا یہ حق ہے کہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے اور اس کیلئے عصری و دینی ایسے تعلیمی ادارے کا انتظام کیا جائے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی جارہی ہوں۔

اگر بچے کی اچھی تعلیم و تربیت کا خیال نہ رکھا تو  اس پر والدین کا آخرت میں مواخذہ ہوگا۔ حدیث میں نبی ﷺ فرماتا ہے کہ ”تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ذمہ دار سے اپنے ماتحتوں کے حوالے سے پوچھا جائے گا“۔
دوسری چیز جو بچے کی دل پر اثر کرتی ہے اور اسے سنوارتا یا بگڑتا ہے وہ ہے ماحول۔ ماحول کا بچے کی زندگی اور مستقبل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

لہذا بچے کیلئے شروع سے صحبت صالح اور نیک ماحول کا بندوبست کیا جائے۔ اور صحبت بد اور گندے ماحول سے حتی الامکان بچایا جائے۔
بچے کا ہر عمل اول ریاء پھر عادت اور آخر میں عبادت بن جاتی ہے۔ تو اول سے صحبت صالح کی بدولت بچہ بچپن میں ریاء کے طور پر عمل شروع کریں گا پھر اس کی عادت بن جائے گی اور جب بلوغ کو پہنچے گا تو یہ عبادت بن چکی ہوگی۔

اور یہ تب گا جب آپ بچے کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی اور قرآنی ماحول بھی فراہم کریں گے۔ کیونکہ ہر بچے کے اندر صلاحتیں اور خوبیاں ہوتی ہے مگر نامناسب ماحول کی وجہ سے وہ اس میں اندر ہی اندر دب جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک چروا ہے نے جنگل سے شیر کا بچہ پکڑ لیا اور اسے بھیڑوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا۔ وہ اگر چہ شیر کا بچہ تھا لیکن بھیڑوں جیسی بزدل اور ڈرپوک حیوانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس میں بھی بھیڑوں جیسی صفات پیدا ہوگئیں۔

ایک دن چشمے سے سارا ریوڑ پانی پی رہا تھا، جب اس شیر کے بچے نے پانی میں اپنا عکس دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ میں تو بھیڑ نہیں بلکہ میں تو شیر ہوں۔ اس احساس کے بعد وہ واقعی شیر بن گیا اور اس نے چیر پھاڑ کرکے اس ریوڑ میں تباہی مچادی۔
تو ساتھیو! اپنے بچوں کو صحبت بد کا شکار نہ ہونے دیں۔ حدیث میں وارد ہے کہ ایک بچے کو والد کی طرف سے بہترین تحفہ اچھی تربیت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ (لاتقتلوا اولادکم) ”اپنے اولاد کو قتل نہ کرو“۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اولاد کو صحیح تعلیم و تربیت اور روحانی اصلاح نہ کرنا بھی قتل اولاد کی مانند ہے۔ اگر بچے کو صحیح روحانی اصلاح و تربیت فراہم کی تو یہی بچہ اس دنیا میں بھی آپ کے کام آئے گا بہ نسبت دوسرے اولاد کے۔ اور موت کے بعد بھی آپ کیلئے دعاء، صدقہ خیرات اور آپ کو نیک اعمال کی ایصال ثواب  بھی کریں گا۔


ماہرین تربیت فرماتے ہیں کہ بچہ 7سال تک بادشاہ ہوتا ہے تو بادشاہ جب غلطی کرتا ہے تو وزیر مشیر اصلاح کراتے ہیں، اسی طرح 7 سالوں تک بچے کی اصلاح کروگے۔ پھر اگلے  7سال یعنی 14 سال تک بچہ غلام ہوتا ہے، اسے جو کہتے ہوں تو مانتے ہیں۔ اور پھر 15 سے 21 سال تک بچہ وزیر ہوتا ہے۔ یعنی وہ والدین کی معاونت کرتا ہے اور والدین بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور مشورہ کرتے ہیں۔

تو ان مراحل کو ذہن میں رکھ کر والدین کو اپنی اولاد کی تربیت کا خاص اہتمام کرنا چاہئیے۔ راقم الحروف کے اِن کلمات کے بعد مہمانوں نے بھی مختصر پیغام کے ذریعے والدین کو مدرسہ تعلیم القرآن کے انتخاب پر داد دی کہ یہ ادارہ فی سبیل اللہ مفت بچوں کو قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین تربیت فراہم کررہا ہے۔ اسی طرح تعلیم و تربیت بڑے بڑے سکولز، کالجز و یونیورسٹیوں میں بھی نہیں دی جاتی۔

جسطرح اس مدرسہ میں یہ دین و قرآن وسنت کے تڑپ رکھنے والے ساتھی آپ کے اولاد کو فراہم کررہے ہیں۔ آپ خوش قمست والدین ہے اور یہ علاقہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی رحمت کا حامل علاقہ ہے کہ یہاں مدرسہ تعلیم القرآن جیسا ادارہ اور مولانا مجاہد خان ترنگزئی صاحب جیسے مخلص موجود ہے۔ لہذا ان لوگوں کی حوصلہ افزائی، قدر اور ہر لحاظ سے ان کے ساتھ تعاون  بھی کریں۔
آخر میں سالانہ امتحانات میں پوزیشن لینے والے طلباء میں مہمانان اور علاقائی مشران نے انعامات تقسیم کیے اور یوں اس پرُنور محفل کا اختتام بندہ ناچیز کے دعاء کے ساتھ ہوا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :