خواب اور تعبیر کی شرعی حیثیت‎

پیر 14 دسمبر 2020

Mujahid Khan Tarangzai

مجاہد خان ترنگزئی

الحمداللہ گزشتہ 12سالوں اللہ تعالیٰ نے مجھے روزانہ درس قرآن پڑھا نے کی تو فیق عطاء فرمائی ہے۔ درس قرآن روزانہ مغرب نماز کے بعد ہوتی ہے جسمیں کثیر تعداد میں سکولز، کالجز، یونیورسٹیز کے  طلباء اور عام عوام شرکت کرتے ہیں۔ ماشاءاللہ درس میں عقائد و اعمال کے ساتھ ساتھ طلباء کے اخلاقی، معاشرتی اور معاملات زندگی کے تربیتی پہلوؤں پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

الحمداللہ پہلے دو بیجز سے فارغ التحصیل طلباء میں اب اکثر علماء، اساتذہ ، داعیان دین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ دوبار ترجمہ وتفسیر کے ساتھ ختم القرآن ہوچکا ہے اور اب تیسری مرتبہ سورۃ یوسف میں درس جاری ہے۔ گزشتہ روز سورۃ یوسف میں خواب کے تعبیر کے حوالے سے آیت کی تشریح میں خواب کی مکمل شرعی تفصیلات بیان کی۔

(جاری ہے)

تو میں نے مناسب سمجھا کہ قارئین کے ساتھ بھی یہ اہم شرعی معلومات شیئر کی جائے تاکہ وہ بھی خواب کے شرعی حیثیت اور اقسام پر سمجھے کیونکہ اکثر لوگوں کو خواب کے حوالے سے متعددسوالات واشکالات رہتے ہیں۔
صحیح بخاری کی روایت ہے،حضرت ابوہریرہ  ؓفرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نبوت منقطع ہوگئی اور سوائے مبشرات کے نبوت کا کوئی حصّہ باقی نہیں رہا۔

صحابہ کرام ؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مبشرات کیا ہیں؟ جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”سچے خواب“۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشرات ہوتے ہیں اور یہ نبوت کا ایک حصّہ ہے۔ ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ ارشاد فرمایا کہ مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصّہ ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کی بعثت کا وقت آیا تو ابتداء میں چھ ماہ تک آپ ﷺ پر وحی نہیں آئی۔

بلکہ چھ ماہ تک آپ ﷺ سچے خواب دیکھتے تو جو واقعہ آپ ﷺ نے خواب میں دیکھا ہوتا بعینہہ وہی واقعہ بیداری میں پیش آجاتا اور آپ ﷺ کا وہ خواب سچا ہوجاتا۔اس طرح چھ ماہ کے بعد پھر وحی کا سلسلہ شروع ہوا اور نبوت ملنے کے بعد تئیس سالوں تک آپ ﷺ دنیا میں تشریف فرمارہے۔ ان تئیس سالوں میں سے چھ ماہ کا عرصہ سچے خوابوں کا زمانہ تھا۔ اب تیئس سالوں کو دو سے ضرب دیں گے تو چھیالیس بن جائیں گے۔

گویا کہ نبی کریم ﷺ کے نبوت کے زمانے (23سال)کو چھیالیس حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اس میں سے ایک حصہ (چھ ماہ) میں آپ ﷺ کو سچے خواب ہی آتے رہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سچے خواب مومن کا نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اور اشارہ اس طرف کردیا کہ یہ سلسلہ میرے بعد بھی جاری رہے گا۔
اب لوگوں میں خواب کے حوالے سے بڑی افراط تفریط پائی جاتی ہے۔

بعض لوگ تو وہ ہیں جو سچے خوابوں کے قائل ہی نہیں۔ نہ خواب کے قائل، نہ خواب کی تعبیر کے قائل ہیں۔ یہ خیال غلط ہے اس لیئے کہ نبی کریم ﷺ نے سچے خواب کو نبوت کا حصہ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف بعض لوگ وہ ہیں جو خوابوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور خواب ہی کو مدار نجات اور مدار فضیلت سمجھتے ہیں۔ اگر کسی نے اچھا خواب دیکھ لیا تو وہ اپناہی معتقد ہوجاتا ہے کہ میں اب پہنچا ہوا بزرگ ہوگیا ہوں۔

تو یہ بات خوب سمجھ لیجئے کہ انسان کی فضیلت کا اصل معیار خواب اور کشف نہیں۔ بلکہ اصل معیار یہ ہے کہ اس کی بیداری کی زندگی نبی کریم ﷺ کے سُنّت کے مطابق ہے یا نہیں؟ بیداری کی حالت میں وہ گناہوں سے پرہیز کرتا ہے یا نہیں؟ بیداری کی حالت میں وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کررہا ہے یا نہیں۔ اگر اطاعت نہیں کررہاہے تو پھر اس کو ہزار خواب نظر آئے ہوں، ہزار کشف ہوئے ہوں، ہزار کرامتیں اس کے ہاتھ پر صادر ہوئی ہوں، وہ معیار فضیلت نہیں۔


حضرت محمد بن سرین ؒ جو بڑے درجے کے تابعین میں سے ہیں، اورخواب کی تعبیر میں امام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پوری اُمت محمد یہ میں خواب کے تعبیر کے حوالے سے ان سے بڑا عالم شاید کوئی پیدا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خواب کی تعبیر کے علم میں ایک خاص ملکہ عطافرمایا تھا۔ ان کا ایک چھوٹا جملہ ہے جو جملہ خواب کی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ فرمایا: ”الرویاء تسر ولاتغر“ یعنی خواب ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان خوش ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اچھا خواب دکھایا۔

لیکن خواب کسی انسان کو دھوکے میں نہ ڈالے اور وہ یہ نہ سمجھے کہ میں بہت پہنچا ہوا ہوگیا اور اس کے نتیجے میں بیداری کے اعمال سے غافل ہوجائے۔“
ہمارے دیوبند کے اکابرین میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے بہت سے لوگ خواب کی تعبیر پُوچھتے تھے تو حضرت صاحب جواب میں یہ شعر فرماتے کہ:
نہ شبنم نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم
من غلام آفتابم ہمہ از آفتاب ؐ گویم
یعنی نہ تو میں رات ہوں اور نہ رات کو پُو جنے والا ہوں کہ خواب کی باتیں کروں۔

اللہ تعالیٰ نے مجھے آفتاب سے نسبت عطاء فرمائی ہے۔ یعنی آفتاب رسالت ؐ سے، اس لیے میں تو اُسی کی بات کہتا ہوں۔ اسی طرح حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرمایا کی جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا (یعنی جس کے خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی) تو اس نے مجھ ہی کودیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی سعادت عطافرمائے تو یہ بڑی عظیم سعادت ہے اور اس کی خوش نصیبی کا کیا ٹھکانہ ہے۔

لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ خوابوں کی بات کو اللہ تعالیٰ نے مسائل شریعت میں حجت نہیں بنایا۔ اور جو ارشاد ات حضور ﷺ سے قابل اعتماد واسطوں سے ہم تک پہنچے ہیں، وہ حجت ہیں ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ خواب کی بات پر عمل کرنا ضروری نہیں۔
اسی طرح خوابوں کے اقسام کو بھی پہچاننا بہت ضروری ہے۔حضرت ابوقتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خواب کی تین نوعتیں ہیں۔

  1) نفس وذہن کی باتیں۔ 2)جو شیطان کی جانب سے ہو پس جب ناپسندیدہ خواب دیکھے تو شیطان سے پناہ مانگے اور بائیں جانب تھوکے، اس کے بعد کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ 3) جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بشارت ہوں اور مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے، اسے کسی خیرخواہ صاحب الرائے کے سامنے پیش کرے۔
پہلی قسم خواب کا مطلب یہ ہے کہ انسان دن بھر جن اُمور میں مشغول رہتا ہے اور اس کے دل ودماغ پر جو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب متشّکل ہوکر نظر آتی ہے۔

اسلیئے ایسے خواب کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ دوسری قسم کا خواب جو ڈراؤنا اور پریشان کرنے والا ہے تو یہ شیطانی اثرات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اسلیئے بیداری میں تو انسان کو گمراہ کرتا رہتا ہے لیکن نیند میں بھی چین نہیں لینے دیتا۔ پہلی قسم کی طرح یہ بھی بےاعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے۔ اس طرح کے ڈراؤنے اور برے خواب سے حفاظت کے لیئے حدیث میں ہدایت کی گئی ہے کہ جب آنکھ کھل جائے تو بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار کردے اور ”اعوذ باللہ من الشیطنٰ الرجیم“ پڑھ لے، جس کروٹ پر خواب دیکھا اس کی جگہ دوسری کروٹ بدل لے، پھر یہ خواب ان شاء اللہ کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔

تیسری قسم خواب من جانب اللہ بشارت ہوتی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کو خواب میں خوشخبری دیتا ہے اور اس کے قلب کے آئینہ میں بطور اِشارات وعلامات ان چیزون کو متشّکل کرکے دکھاتا ہے جو آئیندہ وقوع پذیرہونے والی ہوتی ہے یا جن کا تعلق مومن کی روحانی وقلبی بالیدگی وطمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے۔

خواب کی یہی قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے، اور جس کی فضیلت وتعریف حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ پھر حدیث میں خوا ب کے تعبیر کے حوالے سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ اپنا خواب کسی دوست صالح یا عالم با عمل یا صاحب ذی رائے کے سواکسی سے بیان نہ کرنا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ خواب کو حتی الامکان نیکی پر محمول کرکے اُس کی اچھی تعبیر دیں گے۔
خواب کے تعبیر میں خواب دیکھنے کے وقت کا بھی عمل دخل شامل ہوتا ہے۔

حضرت ابن سیرین ؒ کا قول ہے کہ جو خواب رات کے پہلے حصے میں دکھائی دے، اُس کی تعبیر پانچ سال میں ظاہر ہوتی ہے اور جو آدھی رات میں دکھائی دے اس کی تعبیر پانچ مہینوں تک ظاہر ہوتی ہے اور اگر بہت سویرے صبح دکھائی دے تو اس کی تعبیر دس روز تک ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی جس قدر رات کا وقت دن کے وقت سے ذیادہ نزدیک ہوتو خواب درست ہوتا ہے اور نتیجہ جلد ظہور پذیر ہوتا ہے۔


سمرہ ابن جندب ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نماز صبح کے بعد عموماً صحابہ ؓ سے دریافت فرماتے کہ تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو وہ بیان کرتا اور نبی ﷺ اس کی تعبیر بیان فرماتے۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ یہ دعا پڑھتے: (خيراً تلقاه وشراً تتوقاه، خير لنا وشر لأعدائنا) یعنی اللہ تعالیٰ اس خواب کی خیر تم کو عطاء فرمائے اور اس کے شر سے تمہاری حفاظت فرمائے اور خدا کرکے کہ یہ خواب ہمارے لیئے اچھا ہواور ہمارے دشمنوں کے لیئے بُرا ہوں۔ یہ کچھ شرعی تفصیلات تھی اللہ تعالیی ہمیں دین پر صحیح طریقے سے عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :