نواز شریف کو ڈمیج کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے

منگل 18 جولائی 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

چودھری نثار علی خان بلاشبہ مسلم لیگ (ن) میں اپنی آخری اننگ کھیل رہے ہیں۔ دونوں ایک دورسے سے تنگ آچکے ہیں۔ لیکن اتنی لمبی رفاقت اس طرح ٹوٹ بھی نہیں سکتی۔ دونوں کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ کمبل والی ضرب المثل کی طرح ہے کہ میں تو کمبل چھوٹتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا اور جب کمبل مجھے چھوٹتا ہے تو میں کمبل کو نہیں چھوڑتا۔ لیکن چودھری نثار علی خان مسلم لیگ (ن) میں پہلے شخص نہیں جو اس قسم کی صورت حال کا شکار ہیں۔

اس سے قبل جاوید ہاشمی بھی اسی صورت حال کا شکار تھے۔ اسی لیے ایک موقع پر جب جاوید ہاشمی ناراض گھر بیٹھے تو شہباز شریف نے انہیں فون کیا کہ آئیں اکٹھے کھانا کھاتے ہیں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ (ن) سے نکال نہیں سکتے، جب بھی جاؤں گا میں خود ہی چھوڑ کر جاؤں گا۔

(جاری ہے)

چودھری برادران بھی اسی قسم کی صورتحال کا شکار رہے۔

گوہر ایوب بھی اسی کی ایک مثال ہیں۔
مسلم لیگ (ن) میں یہ مسئلہ ہے کہ ایک خاص حد سے اوپر ترقی نہیں ہے اور وہاں پہنچ کر آپ خود کو بند گلی میں محسوس کرتے ہیں۔ آپ کو اپنی سیاست میں آگے کچھ نظر نہیں آتا اور جہاں آپ ہوتے ہیں وہاں سے آپ بیزار ہو چکے ہوتے ہیں۔ شاید چودھری نثار علی خان بھی اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہیں۔ وہ وفاقی وزیر بن بن کر تھک گئے ہیں اور اس سے آگے ان کے لیے کچھ نہیں۔

اسی لیے وہ اب بار بار ناراض ہو جاتے ہیں۔ شروع شروع میں ان کی ناراضی ایک خبر تھی لیکن اب تو خبر بھی نہیں بلکہ اگر وہ ناراض نہ ہوں تو خبر ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ چودھری نثار علی خان وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ لیکن پارٹی میں ان کے لیے راہ ہموار نہیں۔ ان کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے جو انہوں نے جاوید ہاشمی کے لیے کیا۔ وہ متنازعہ ہو چکے ہیں۔

ان کے نام پر سب کا اتفاق ہونا ممکن نہیں۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے حلیفوں کو قبول نہیں اور حریفوں کو قبول ہیں اور حریفوں کو قبولیت اعزاز نہیں مشکوک بات ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اب تک ان کی وفاداری شک و شبہ سے بالاتر رہی ہے۔ لیکن سوال آج کا ہے۔ اور آج کا منظر نامہ دھندلا ہے۔ وہ آج مسلم لیگ (ن) میں اسی قسم کی صورتحال شکار ہیں جس کا 2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی میں امین فہیم شکار تھے۔

لیکن امین فہیم نے نظر انداز کیے جانے کے باوجود پیپلز پانرٹی نہیں چھوڑی۔ وہ پچھلی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے اقتدار کو جاتے دیکھا۔ لیکن برداشت کیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا چودھری نثار علی خان بھی مخدوم امین فہیم کی طرح کریں گے۔ مشکل نظر آتا ہے۔ مخدوم امین فہیم نرم مزاج سندھی وڈیرے تھے اور چودھری نثار علی خان ایک جنگجو انسان ہیں۔


چودھری نثار علی خان کی بات اس حدتک درست ہے کہ نواز شریف کی ٹیم نے پانامہ کا معاملہ مس ہینڈل کیا۔ یہ بھی درست ہے کہ مسلم لیگ ن نے پانامہ کی لڑائی لڑنے کے لیے جونئیر ٹیم کو آگے کیا۔ جونئیر ٹیم نے حماقتیں بھی کی ہیں اور ان کی ناتجربہ کاری بھی سامنے آئی ہے۔ اسی لیے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پانامہ کے بحران نے مسلم لیگ (ن) کے اندر صف بندی بدل دی ہے۔

نئی صف بندی ہو گئی ہے۔ نئے چہرے سامنے آگئے ہیں۔ پرانے چہرے پیچھے چلے گئے ہیں۔ اس کو ایسے بھی کہا جارہا ہے کہ پانامہ بحران میں موقع کو غنیمت جان کر خوشامدیوں نے نواز شریف کو گھیر لیا۔ جو ٹیم حکمران جماعت کی طرف سے پانامہ کی لڑائی لڑ رہی تھی ان کا سیاسی قد چھوٹا تھا۔ ان کا سیاسی ماضی مسلم لیگ (ن) سے وفاداری کے حوالے سے داغدار تھا۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی پہچان نہیں تھے۔

اسی لیے مخالفین ان پر حاوی ہوگئے۔ لیکن جب بڑے گھر بیٹھے رہیں تو چھوٹوں نے تو آگے آنا تھا۔ کیا میاں نواز شریف ان نام نہاد بڑوں کو گھر سے بلانے جاتے۔ میرے دوستو آؤ میں مشکل میں ہوں۔ کیا سب کو نظر نہیں آرہا تھا۔ چودھری نثار علی خان کے اعتراضات اپنی جگہ لیکن ان کی خاموشی بھی ایک سوال ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ نواز شریف جونئیر خوش آمدی ٹولے کے نرغے میں ہیں جو معاملات کو خراب کر رہا ہے۔

تو سینئیرز بھی کوئی روڈ میپ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ نواز شریف کی محاذ آرائی کی حکمت عملی درست نہیں۔ یہ وقت سب کچھ تباہ کردینے کا نہیں۔ Damagecontrol بھی سوچنا ہے۔ جہاں ایک بھی بحران میں کردار ادا کرنے کے لیے سامنے آنا ہوگا۔
نواز شریف نے استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ اس بات میں وزن ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف سے نواز شریف بطور عام آدمی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ نے ان کے رفقا کے ہاتھ اور پاؤں بھی باندھے ہوئے ہیں۔ حکومت کی مجبوریاں بقا کی جنگ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہیں۔ دشمن ان مجبوریوں کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جس سے سیاسی نقصان ہو رہا ہے۔
تو کیا یہ منطق درست ہے کہ اگر نوازشریف بطور عام آدمی اور مسلم لیگ (ن) کے قائد باقی لڑائی لڑیں تو damagecontrol بھی ہو جائے گا۔

اقتدار بھی بچ جائے گا اور نقصان کم ہو جائے گا۔ اگر نواز شریف نے بطور وزیر اعظم یہ لڑائی لڑی تو زیادہ نقصان کا خطرہ ہے۔ لیکن شائد مسلم لیگ (ن( اس کے لیے تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں اس وقت جو گروپ حاوی ہوگیا ہے۔ وہ اس منطق کے خلاف ہے۔ انہوں نے نواز شریف کو یقین دلادیا ہے کہ بچنے کے لیے وزارت عظمیٰ سے چپکے رہنا ضروری ہے۔
یہ ایک مشکل فیصلہ ہے کہ کیا عدالت سے نااہلیت کا انتظار کرنا چاہیے اور جب زبردستی گھر بھیجا جائے تو گھر جائیں۔

یا پہلے خود چلے جائیں اور عدالت کا مقابلہ کریں۔ کیا محاذ آرائی کو بڑھانے سے معاملات بند گلی میں نہیں چلے جائیں گے اور اقتدار نکل جائے گا۔ کیا صرف آج کا سوچا جائے 2018ء کے انتخابات کا منظر نامہ بھی سامنے رکھا جائے۔ کیا متبادل قیادت کو سامنے لانے کا وقت نہیں آگیا تاکہ اس حوالہ سے ابہار ختم کیا جاسکے۔ کیا شہباز شریف کو آگے لانے کا وقت آگیا تاکہ جو ناراض ہیں انہیں بھی منایا جاسکے۔

گروپ بندی کو روکا جاسکے۔
محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ دروازے کھلے رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس لیے جہاں لڑائی لڑنی ہے وہاں پلان بی کے ساتھ متبادل نام بھی سامنے لانا ہے تاکہ وہ اپنی تیاری بھی کرسکے۔ یہی سیاست ہے جہاں آج کے ساتھ کل پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے۔ ورنہ دشمن تو آج میں الجھا کر کل چھیننا چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :