اِسلام، سیکولرازم اور رواداری‎‎

پیر 23 اگست 2021

Nadeem Qureshi

ندیم قریشی

ہمارے ہاں بعض لوگوں کے ذھن میں یہ دُھن سمائی ہے کہ سیکولرازم رواداری کا دوسرا نام ہے۔ خاص کر مغربی اقدار سے متاثرہ ہمارا پڑھا لکھا لبرل طبقہ تو اِس خیال کا نہایت پرجوش حمایتی ہے۔ ہم اگرچہ فوری طور پر اِس طرزِ خیال کی تردید نہیں کرتے۔ لیکن یہ سوال بجاۓ خود اہمیت کا حامل ہے کہ اگر سیکولر اقدار واقعی رواداری ہی کا دوسرا نام ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ مغربی ترقی یافتہ معاشروں میں مزہبی اَقلیتوں بلخصوص مسلمانوں کو تضحیک اور ہُتک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر فرانس کو ہی لے لیجیے جو کہ مغربی لبرل اقدار اور سیکولر طرزِ حیات کا نقیب ہے وہاں پیغمبرِ اِسلام حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے ملک کے اہم ترین اخبارات میں چھاپ کر نہ صرف فرانس بلکہ پوری دنیا کے طول و بلد میں مسلمانوں کی دل آزاری کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

آخر کیوں؟ ۔۔۔ کیا وجہ ہے کہ جمہوریہ فرانس کی سیکولر حکومت اپنی حدود کے اندر مسلم اقلیتی گروہ کو مزہبی علامات کے اظہار سے قصداً روک دیتی ہے؟ حالآنکہ یہ علامات مسلم کمیونیٹی کے مروجہ اطوار کی مناسبت سے اُنکی مخصوص ثقافتی اقدار کی علامت ہیں۔

آخر ایسا کیوں ہے کہ اپنی عفت اور حیا کی حفاظت کرنے والی ایک پردہ دار مسلم خاتون کو متعدد مغربی معاشروں میں طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ مغرب میں سیکولر آزادیِ اظہار کی دعویدار حکومتیں ہالوکاسٹ جیسے واقعات کو تواتر کے ساتھ سامی نسل کُشی سے تعبیر کرتی ہیں؟ بلکہ بیشتر ممالک میں ہالوکاسٹ کا تزکرہ تک ممنوع ہے دراں حالیکہ خود اِنہی معاشروں میں نام نہاد عقلی اِستدلال کی بنیاد پر مسلمہ مزہبی تصورات اور اعمال کی بنیادیں تک ہلا دینے سے گریز نہیں کیا جاتا۔


ہمیں بساطِ عالم پر واقع ہونے والے نمایاں سیکولر تضادات سے بھی کچھ تعارض نہیں۔ ہم اپنے لبرل مُبصرین کی اِسی راۓ سے ہی اتفاق کیے لیتے ہیں کہ سیکولرازم دراصل رواداری ہی کا دوسرا نام ہے اور رواداری اِصطلاح میں حبِ عام ہے، یعنی یہ کہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے محبت رکھی جاۓ۔ اِس حبِ عام کا کوئی عملی تصور ممکن نہیں جب تک کہ اِنفرادی و اِجتماعی سطح پر اچھائی اور برائی کے چند مسلمہ معیارات کو مدِ نظر نہ رکھا جاۓ جو انسان کی فطرت میں مضمر ہیں۔

اِس اعتبار سے اِسلام ہی ایک ایسا مزہب انسانیت ہے جو انسان کی فطری اِقتضاعات کو مستقل قانونی سانچوں میں ڈھال کر عمل کی ایسی راہیں متعیّن کرتا ہے جن سے انسانیت کا وقار بحال ہو سکے۔ ہماری خالص اِسلامی روایات میں رواداری غیر مشروط اطاعتِ خداوندی اور محبت بنی نوعِ انساں جیسے اعلیٰ انسانی اعمال اور محاسن پر محیط ہے۔ اگر مسلہ فی الواقعی حبِ انسانی کو عام کرنا ہے تو ہم مغربی سیکولر اقدار کی بھونڈی نقالی کی بجاۓ کیوں نہ اُن شعائر کا اتباع کریں جنہیں اسلام حبِ انسانی کے فروغ کے لیے اپنے ماننے والوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔

 
خالص انسانی سَطح پر اگر دیکھا جاۓ تو اِسلام اپنے پیروکاروں سے جن اِنفرادی و اِجتماعی اعمال کے بجا لانے کا مطالبہ کرتا ہے اُن میں سے کوئی ایک بھی انسانیت کے برخلاف واقع نہیں ہوا۔ مثلاً اِنفرادی سطح پر انسانوں کو جن برے اعمال سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے اُن میں جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، بدکلامی، فحش گوئی، غیبت، الزام تراشی، بُہتان، عیب جُوئی، بے جا نمود و نمائش اور دوسروں کی دلآزاری کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔

اِسی طرح انسان کے اِنفرادی محاسن کو اجاگر کرنے کے لیے چند اچھائیوں کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جن میں سچائی، حسنِ سلوک، ایثار، قربانی، دوستی، اخلاص، مروّت، شفقت اور مرحمت جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ اِسلام پر اَمن اجتماعِ باہمی کا داعی ہے۔ چونکہ معاشرے کا اَمن اور سکون بحیثیتِ مجموعی انسانوں کے لیے نفع بخش ہے لہٰزا ظُلم، جبر، اِستحصال، دھوکہ دہی، فراڈ، غبن ، قتل و غارت گری، چوری، ڈاکہ زنی، اور بدکاری جیسی معاشرتی برائیوں کا سدِ باب اِسلام کی ترجیحات میں شامل ہے۔

معاشرتی برائیوں کا سدِ باب بجاۓ خود اہمیت رکھتا ہے تاہم اِس سے بڑھ کے انسان دوستی کا معیار اور کیا متعین کیا جاۓ کہ اِسلام نے فلاحِ انسانیت کی ضامن اِجتماعی خوبیوں اور محاسن کو فروغ دیا، جن میں حسنِ سلوک، صِلہ رحمی، امدادِ باہمی، اِجتماعی فلاح و بہبود، اور احترامِ آدمیت قابلِ توجہ ہیں۔ ہمارے روزمرہ کردار میں اِسلامی شعائر کی جھلک ہی دراصل رواداری کا عملی مظاہرہ ہے اور فی الحقیقت یہی حقیقی انسان دوستی ہے۔

ہمارے ہاں تبلیغِ دین کا مقصد صرف اور صرف حق کا ابلاغ ہے۔ اپنے مخاطبین کو ترسیلِ حق کے بعد تبدیلیِ مزہب پر مجبور کرنا حقیقی اِسلامی تعلیمات کی کُھلی خلاف ورزی ہے۔ ازروۓ قرآن رُشد و ہدایت کی روشنی کو جہالت کی تاریکیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ممتاز و ممیّز کیا گیا ہے۔ بقول شاعر،
اب جس کے جی میں آۓ وہی پاۓ روشنی
ہم  نے   تو  دِل  جلا  کے  سرِعام  رکھ   دیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :