
امریکی سَرکار کو "نہ" ہی بھلی
منگل 29 جون 2021

ندیم قریشی
افغانستان سے پہلی بار امریکی انخلا کے زخم ابھی بھرنے نہیں پاۓ تھے کہ امریکہ بہادر ایک مرتبہ پھر جنگ سے تباہ حال ملک میں مکمل امن اور سیاسی و معاشی انفراسٹرکچر کی بحالی کے اہداف حاصل کیے بغیر کوچ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ نہ جانے دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی اس جنگ میں وہ کیا مقاصد تھے جن کی تکمیل امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک ممکن ہو پائی؟ ہمیں تو اِس نام نہاد جنگ کے نتائج بڑے پیمانے پر تباہی اور ہلاکتوں کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتے۔ اس پر مستزاد یہ کہ طالبان جن کے خلاف امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد یہ جنگ شروع کی گئی تھی تاحال ایک مضبوط قوت کی حیثیت سے سرگرم ہیں۔ دوسری جانب امریکی سرکار کی حالت کسی بدمست سورما کی سی ہے جو اپنی وحشت اور جنون میں بظاہر ایک کمزور حریف سے الجھ بیٹھا ہو اور پھر نہ جاۓ ماندن نہ پاۓ رفتن کے مصداق حال یہ ہو کہ ایک جانب تو اپنےحریف کو چاروں شانے چت گرا دینے کا دعویدار ہو اور دوسری جانب اُس سے جنگ بندی کے معاہدے بھی کرتا پھرتا ہو۔
بظاہر افغانستان میں امریکی ہزیمت کے آثار نمایاں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دہشت کا تدارک تو خیر کیا ہوتا اُلٹا اِس جنگ کی کوکھ سے جو دہشت گردی برآمد ہوئی تاریخ انسانیت اُسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ پھر افغان سرحد سے ورا اِس جنگ کی ہولناکیوں نے خود ہمارے معاشرے کو بری طرح سے متاثر کیا۔ شاید ہی کوئی صاحبِ عقل ہو جو نہ جانتا ہو کہ اغیار کی اِس لڑائی میں غیر مشروط شمولیت کا جتنا معاوضہ ہمیں ڈالرز کی شکل میں ملا اُس سے کہیں زیادہ کا ہمیں نقصان بھگتنا پڑا۔ معاشی خسارے سے قطعہ نظر ہزاروں انسانی زندگیوں کا ضیاع ہماری قومی تاریخ کا ایک الگ المیہ ہے۔ ہمارے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2000 سے 2010 کے درمیان صرف دس سالوں میں قومی سطح پر ہمیں پہنچنے والے معاشی نقصان کا تخمینہ 68 بلین ڈالرز تھا جوکہ اخباری ذرائع کے مطابق سال 2018 تک بڑھ کے 127 بلین ڈالرز تک پہنچ گیا۔ معاشی خسارے سے قطع نظر امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال نے ہمارے ہاں ایک معاشرتی ہیجان اور وحشت کی کیفیت کو جنم دیا جس سے عالمی سطح پر ہماری پہچان مسخ ہو کر رہ گئی۔
افغانستان میں امریکہ کی مشغولیت یقیناً امریکی مفادات کے تابع ہے۔ تاہم اِس بے سروپا ہنگامہ آرائی کے تناظر میں یہ سوال یقیناً اہم ہے کہ ہم غیروں کی بھڑکائی اِس آگ میں بطور ایندھن آخر کیوں جلیں؟ امریکی انتظامیہ کے لیے اپنی معاشی مشکلات کے پیشِ نظر افغانستان سے فوری انخلا ناگزیر ہے۔ تاہم امریکی پالیسی ساز افغان سرزمین سے انخلا کے باوجود افغان دھڑوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے خواہاں ہیں۔ چنانچہ بائیڈن انتظامیہ سالِ رواں کے دوران 11 ستمبر تک امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان کے قرب و جوار میں واقع پڑوسی ممالک بلخصوس پاکستان میں سٹریٹیجک مقاصد کے لیے فوجی اڈوں کے حصول کی غرض سے متحرک ہے۔ امریکی مفاد اپنی جگہ لیکن ہمارے لیے اصل مسلہ سرحد پار سے دہشت گردی کا نفوز ہے جس کے ہم کسی طور متحمل نہیں ہو سکتے۔ افغان سرزمین سے فوجی انخلا کے باوجود انٹیلیجنس نیٹ ورک کی فعالیت بلاشبہ امریکی انتظامیہ کی ایک اہم ضرورت ہے۔ تاہم جنگ سے تباہ حال اس حطے میں مکمل امن انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو سمیت ایک وسیع تر نمائندہ حکومت کے قیام سے مشروط ہے۔ یہ مقاصد بجاۓ خود متقاضی ہیں کہ امریکہ ایک طویل المدتی مفاہمتی پالیسی کے تحت افغانستان میں مصروفِ عمل رہے۔ ایسے دیرپا امن کے اہداف حاصل کیے بغیر متاثرہ علاقے کو شرپسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوۓ اصل مسلے سے الگ تھلگ ہو جانا امریکی قیادت کا ایک ایسا اقدام ہو گا جسے خودغرضی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
افغان تنازع اور پاکستان پر اُسکے ممکنہ اثرات کے تناظر میں وزیرِ اعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی چینل ایچ بی او کو حال ہی میں دیے گۓ اپنے ایک انٹرویو میں انخلا کے بعد امریکہ کو پاکستانی سر زمین پر انسدادِ دہشت گردی کے مقاصد کے لیے اڈے دینے کے امکان کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ اِس سے پہلے پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی متعدد بار افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد امریکی اڈوں کی پاکستان منتقلی کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔ اصولی طور پر یہ بات مسلم ہے کہ ہمارا معاشی مفاد اندرونِ ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے سے مشروط ہے۔ افغان بارڈر کے ساتھ پاکستانی سرحد کو باڑ لگا کے مستقلاً بند کرنے کے حالیہ حکومتی اعلانات کا اصل مقصد بھی سرحد پار سے دہشت گردی کی ممکنہ کاروائیوں کو روکنا ہے۔ پاکستان میں معاشی اور صنعتی ترقی کے لیے پر امن ماحول میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ ہمارے لیے از حد ضروری ہے کہ ہم افغانستان میں مکمل امن کی بھالی کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کوشاں رہیں۔ ہمیں کسی طور افغانستان میں امریکی ترجیحات کی تکمیل کے لیے آلہِ کار بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(جاری ہے)
بظاہر افغانستان میں امریکی ہزیمت کے آثار نمایاں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دہشت کا تدارک تو خیر کیا ہوتا اُلٹا اِس جنگ کی کوکھ سے جو دہشت گردی برآمد ہوئی تاریخ انسانیت اُسکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ پھر افغان سرحد سے ورا اِس جنگ کی ہولناکیوں نے خود ہمارے معاشرے کو بری طرح سے متاثر کیا۔ شاید ہی کوئی صاحبِ عقل ہو جو نہ جانتا ہو کہ اغیار کی اِس لڑائی میں غیر مشروط شمولیت کا جتنا معاوضہ ہمیں ڈالرز کی شکل میں ملا اُس سے کہیں زیادہ کا ہمیں نقصان بھگتنا پڑا۔ معاشی خسارے سے قطعہ نظر ہزاروں انسانی زندگیوں کا ضیاع ہماری قومی تاریخ کا ایک الگ المیہ ہے۔ ہمارے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2000 سے 2010 کے درمیان صرف دس سالوں میں قومی سطح پر ہمیں پہنچنے والے معاشی نقصان کا تخمینہ 68 بلین ڈالرز تھا جوکہ اخباری ذرائع کے مطابق سال 2018 تک بڑھ کے 127 بلین ڈالرز تک پہنچ گیا۔ معاشی خسارے سے قطع نظر امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال نے ہمارے ہاں ایک معاشرتی ہیجان اور وحشت کی کیفیت کو جنم دیا جس سے عالمی سطح پر ہماری پہچان مسخ ہو کر رہ گئی۔
افغانستان میں امریکہ کی مشغولیت یقیناً امریکی مفادات کے تابع ہے۔ تاہم اِس بے سروپا ہنگامہ آرائی کے تناظر میں یہ سوال یقیناً اہم ہے کہ ہم غیروں کی بھڑکائی اِس آگ میں بطور ایندھن آخر کیوں جلیں؟ امریکی انتظامیہ کے لیے اپنی معاشی مشکلات کے پیشِ نظر افغانستان سے فوری انخلا ناگزیر ہے۔ تاہم امریکی پالیسی ساز افغان سرزمین سے انخلا کے باوجود افغان دھڑوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے خواہاں ہیں۔ چنانچہ بائیڈن انتظامیہ سالِ رواں کے دوران 11 ستمبر تک امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان کے قرب و جوار میں واقع پڑوسی ممالک بلخصوس پاکستان میں سٹریٹیجک مقاصد کے لیے فوجی اڈوں کے حصول کی غرض سے متحرک ہے۔ امریکی مفاد اپنی جگہ لیکن ہمارے لیے اصل مسلہ سرحد پار سے دہشت گردی کا نفوز ہے جس کے ہم کسی طور متحمل نہیں ہو سکتے۔ افغان سرزمین سے فوجی انخلا کے باوجود انٹیلیجنس نیٹ ورک کی فعالیت بلاشبہ امریکی انتظامیہ کی ایک اہم ضرورت ہے۔ تاہم جنگ سے تباہ حال اس حطے میں مکمل امن انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو سمیت ایک وسیع تر نمائندہ حکومت کے قیام سے مشروط ہے۔ یہ مقاصد بجاۓ خود متقاضی ہیں کہ امریکہ ایک طویل المدتی مفاہمتی پالیسی کے تحت افغانستان میں مصروفِ عمل رہے۔ ایسے دیرپا امن کے اہداف حاصل کیے بغیر متاثرہ علاقے کو شرپسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوۓ اصل مسلے سے الگ تھلگ ہو جانا امریکی قیادت کا ایک ایسا اقدام ہو گا جسے خودغرضی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
افغان تنازع اور پاکستان پر اُسکے ممکنہ اثرات کے تناظر میں وزیرِ اعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی چینل ایچ بی او کو حال ہی میں دیے گۓ اپنے ایک انٹرویو میں انخلا کے بعد امریکہ کو پاکستانی سر زمین پر انسدادِ دہشت گردی کے مقاصد کے لیے اڈے دینے کے امکان کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ اِس سے پہلے پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی متعدد بار افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد امریکی اڈوں کی پاکستان منتقلی کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔ اصولی طور پر یہ بات مسلم ہے کہ ہمارا معاشی مفاد اندرونِ ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے سے مشروط ہے۔ افغان بارڈر کے ساتھ پاکستانی سرحد کو باڑ لگا کے مستقلاً بند کرنے کے حالیہ حکومتی اعلانات کا اصل مقصد بھی سرحد پار سے دہشت گردی کی ممکنہ کاروائیوں کو روکنا ہے۔ پاکستان میں معاشی اور صنعتی ترقی کے لیے پر امن ماحول میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ ہمارے لیے از حد ضروری ہے کہ ہم افغانستان میں مکمل امن کی بھالی کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کوشاں رہیں۔ ہمیں کسی طور افغانستان میں امریکی ترجیحات کی تکمیل کے لیے آلہِ کار بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.