کورونا ویکسین: افواہیں اور چند وضاحتیں‎

منگل 15 جون 2021

Nadeem Qureshi

ندیم قریشی

وفاقی وزیر براۓ منصوبہ بندی اور ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام سے متعلق قومی ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اسد عمر کے ایک حالیہ بیان کے مطابق پاکستان میں دس ملین افراد کو کورونا کے خلاف مدافعتی ویکسین لگا دی گئی ہے۔ اسد عمر نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ حکومت اس معاملے میں تمام ممکنہ وسائل بروۓ کار لا رہی ہے اور یہ کہ انکی بھرپور کوشش ہے کہ سالِ رواں کے آخر تک ستر ملین تک آبادی ویکسینیشن کے عمل سے مستفید ہو پاۓ تاکہ ملک میں زندگی کا پہیہ پھر سے رواں ہو سکے۔

یہ حقیقت از خود عیاں ہے کہ زندگی کو عام ڈگر پر لانے اور قومی معیشت کو از سرے نو فعال کرنے کی غرض سے ویکسینیشن کے عمل کا بلا روک ٹوک جاری رہنا ازحد ضروی ہے۔ دریں اثنا ملک میں ویکسینیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے جس کے باعث اِس ضمن میں پاۓ جانے والے ابتدائی حدشات کے ازالے میں کافی مدد ملی ہے۔

(جاری ہے)

تاہم ویکسین کے استعمال سے متعلق باقی ماندہ دنیا کی طرح ہمارا معاشرہ بھی تاحال کئی ایک افواہوں کی زد میں ہے۔


ہمارے خیال میں ملک میں ویکسینیشن کے عمل کو حکومتی توقعات کے موافق تیز تر کرنے کے لیے چند ایک مروجہ افواہوں کا تدارک از حد ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اِس وقت یورپی، چینی اور روسی ساخت کی متعدد ویکسینز مستعمل ہیں جوکہ طبی اعتبار سے انسانی جسم میں وائرس کے خلاف مدافعت کو تحریک دینے کی غرض سے تیار کی گئی ہیں۔ البتہ اِن میں یورپی ساختہ ویکسینز بلخصوص فائیزر، ایسٹرا زینیکا اور ماڈرنا کے اجزاۓ ترکیبی کے متنازع ہونے سے متعلق کئی ایک شکوک و شبہات گردش میں ہیں۔

ابتداً ان ویکسینز کے اجزا میں جاسوسی کی غرض سے متنازع مائیکروچپس کی موجودگی کا حدشہ ظاہر کیا گیا۔ بلکہ ہمارے ہاں تو بعض ناعاقبت اندیشوں نے بظاہر ویکسین لگوانے والے بعض افراد کے بازوؤں پر مقنطیس چپکانے اور بلب جلانے کا عملی مظاہرہ بھی کر ڈالا۔ ایسے مظاہروں پر مبنی ویڈیوز کی ہمارے سوشل میڈیا پر تھوڑی بہت تشہیر ضرور ہوئی تاہم ایسی اطلاعات صداقت کے عنصر سے قطعاً خالی ہیں۔


امریکی ادارے جان ہاپکنز انسٹیٹیوٹ آف میڈیسن کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کورونا ویکسین کے اجزا متعلقہ وائرس کی اوپری سطح پر پائی جانے والی نوکدار پروٹینی جھلیوں کی نقالی میں معاون ہیں، جن سے انسانی جسم کو ایسے خم دار نوکیلے پروٹین کے حامل وائرس کے خلاف مدافعت میں مدد ملتی ہے۔ کورونا ویکسین کی غرض صرف انسانی جسم کے حفاظتی نظام کو تقویت پہنچانا ہے اور اِسکے اجزا میں کس قسم کی مائیکرو چپ کی موجودگی قطعاً خارج از امکان ہے۔


ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر ایک اور افواہ یہ منظرِ عام پر آئی کہ کورونا ویکسین خواتین کی افزائشِ نسل کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ یہ محض ایک غلط فہمی ہے۔ اپنے آزمائشی مراحل میں مختلف ویکسینز کو حاملہ خواتین کے لیے قطعاً محفوظ پایا گیا۔ مزید برآں آزمائشی مراحل کے بعد یہ ویکسینز دنیا کے مختلف حصوں میں کروڑہا افراد کو لگائی جا چکی ہیں جن میں ایک کثیر تعداد حاملہ خواتین کی بھی ہے، لیکن تا حال اِنکے کوئی ایسے اثرات سامنے نہیں آۓ جو دورانِ حمل پیچیدگی کا باعث ہوں۔


بعض ویکسینز مثلاً فائیزر اور ماڈرنا وغیرہ کے چند سائیڈ ایفیکٹس سامنے آۓ ہیں۔ اِن اثرات میں سر درد اور بخار کی علامات ہیں جو چند لوگوں میں ظاہر ہوئی ہیں۔ لیکن یہ اثرات نہ تو طویل المدتّی ہیں اور نہ ہی جان لیوا ہیں۔    
جان ہاپکنز کے طبی ادارے کی تحقیق سے ظاہر ہے کہ اِن اثرات کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ دو سے تین دن ہے جبکہ یہ علامات دراصل اِس بات کا ثبوت ہیں کہ ویکسین کے اثرات کے تحت انسانی جسم کے مدافعتی نظام میں مطلوبہ تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہوچکی ہیں۔


کورونا ویکسین سے متعلق ایک اہم غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اِسکا استعمال انسانی ڈی این اے کی ساخت کو متاثر کرسکتا ہے۔ حال ہی میں کی گئی تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ ویکسین کے اجزا ہمارے جسم کے خلیوں میں داخلے کے بعد مطلوبہ پروٹین کو تحریک دیتے ہیں تاکہ وائرس کے حملے کے خلاف مدافعت میں اضافہ ہو سکے۔ تاہم اِس عمل کے دوران یہ اجزا خلیے کے مرکزے میں جہاں ڈی این اے پایا جاتا ہے داخل نہیں ہونے پاتے۔


ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جن لوگوں کو پہلے کورونا ہو چکا ہے اُنہیں ویکسین کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس ضمن میں ابتک کی تحقیقات سے یہ واضح نہیں ہے کہ پہلے کورونا ہونے کی صورت میں جسم کی فطری مدافعت مزید کتنے عرصے تک متحرک رہتی ہے۔ البتہ بعض تحقیقاتی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فطری مدافعت کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہے۔ لہذا احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ ویکسین کے ذریعے فطری مدافعت کو تقویت دی جاۓ۔ ہم احتیاتی تدابیر پر عمل پیرا ہو کر ہی اپنے آپ کو، اپنے اہلِ خانہ کو اور اپنے گردوپیش میں بسنے والے دوسرے انسانوں کو بیماری سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :