مقدمے سے فیصلے تک

بدھ 23 دسمبر 2020

Naeem Khan Qaisrani

نعیم خان قیصرانی

مقننہ جوعو ام کے منتخب نما ئند وں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ منتخب نما ئند ئے چو نکہ عو ام میں سے ہی ہو تے ہیں اس لیے یہ عو ام کے مسائل کو اچھے طر یقے سے جانتے اور سمجھتے ہیں لہذا یہ ایک عام آدمی کی خواہشات اور ضروریا ت کو مد نظر رکھتے ہو ئے قانو ن ساز ی کر تے ہیں۔ بڑ ے افسو س سے کہنا پڑ ے گا قبضے،قتل اور مقد مے کے متعلق قو انین صدیو ں پر انے ہیں مثا ل کے طو ر ضابطہ دیو انی ایک سو سال سے زائد کا پر انا ہے، ضابطہ فو اجد اری ایک سو سال سے زائد کا پر اناہے اور تعزایر ت کا قانو ن تو ڈیڑ ھ سو سال پرانا ہے۔

اگر چہ ان قو انین میں مختلف ادوار میں مختلف تر امیم ہو تی رہی ہیں لیکن یہ تر امیم ناکا فی ہیں اور مقننہ کو ابھی بہت سارا کا م کر نا با قی ہے کیو نکہ ناجائز قبضے کی شکل میں ہو نے والا قتل ہو اور پھراس قتل کا مقد مہ درج ہو نے اور فیصلے آنے میں جو تا خیر ہو رہی ہے اور اسی تاخیر کے باعث لو گو ں کو ذہنی پر یشانی کے علا وہ ان کے جان و مال کو جو نقصان ہو رہا ہے اس میں عدلیہ اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقننہ بھی بر ابر کی شر یک ہے۔

(جاری ہے)


اب بات کر تے ہیں عد لیہ کی، جب ایک جائز قابض و مالک شخص سے غیر قانونی طور پر زبر دستی یا جعلسازی کر کے قبضہ چھین لیا جا تا ہے تو اس کے پاس داد رسی کے دو طر یقے ہیں ایک تو وہ دیو انی عدالت میں Specific Relief Act1877کی دفعہ 9کی رو سے قبضہ بحا لی کا دیوانی مقد مہ دائر کر ے اورپھر یہ دیو انی مقد مہ دیوانی عدالت سے لیکر ملک کی سب سے بڑ ی عدالت سپر یم کورٹ تک اپیلو ں کے فیصلے آنے میں کم از کم 20سال لگ جاتے ہیں اور اس دوران ایک نسل کی جگہ دوسر ی نسل آجاتی ہے اس کے علاوہ لا کھو ں روپے کے اخر اجا ت اس کے علا وہ اور ہو جاتے ہیں۔

دوسرا راستہ یہ بھی  ہے کہ متا ئژ شخص فو جد اری مقد مہ تعز ایر ت پاکستا ن کا سہا ر ا لے کیو نکہ جب بھی غیر قانو نی طور قبضہ کر نے کی کو شش کی جاتی ہے تب نقص امن کا نہ صر ف خد شہ ہو تا ہے بلکہ بعض اوقات فریقین میں سے کسی کی جان تک چلی جاتی ہے اس صو رت میں فو جدار ی مقد مہ دائر کیا جاتا ہے اگر ملزمان بااثر ہو ں تو گر فتاریاں جلد ی عمل میں نہیں آتیں۔

مقد مہ تفیشی مر احل میں ہی کمز ور ہو جا تا ہے اور ملز مان ضمانت کروا کر چھو ٹ جا تے ہیں۔ایک دفعہ ضمانت ہو جانے کی صو رت میں مد عی مایو س ہو کر گھر بیٹھ جاتا ہے اور پھر پو لیس عر صہ دراز تک چالا ن جمع نہیں کر واتی حالا نکہ سپریم کورٹ کے لا تعداد فیصلے مو جو د ہیں کہ پو لیس ہر صو رت مکمل چلا ن قانو نی مد ت 14دن میں ہی پیش کر ے لیکن فو جد اری مقد مہ بھی دیو انی مقد مے کی طر ح بر سو ں چلتا ہے اور اس کی اپیل سپریم کو رٹ تک جاتی ہے۔

قتل کا مقد مہ جسے حر ف عام 302کا مقد مہ کہا جا تا ہے، ایک اہم باریک اور بہت حساس مقد مہ ہے اس میں کئی لا تعد اد قانونی پیچید گیا ں مقد مے کا رخ بد ل دیتی ہیں لہذا اس کے ٹر ائل میں بہت احتیا ط بر تنی پڑ تی ہے۔
مقننہ قا نو ن بنا تی، عدلیہ قانو ن کی تشر یح کر تی ہے اور مقد ما ت کا فیصلہ سنا تی ہیں جبکہ فیصلو ں پر عملد آمد انتظامیہ کا کا م ہے۔

انتظامیہ کا نہ صر ف یہ کا م ہے کہ وہ عد لیہ کے فیصلو ں پر عملد آمدیقینی بنائے کیو نکہ عدالتوں کے پا س صر ف اخلاقی طاقت ہو تی  ہے تو ہین عدالت کا اختیا ر کبھی بھی عملدآمد میں کا رآمد ثابت نہیں ہو تا۔  مقد ما ت میں تفیش کا کام بھی انتظا میہ کا ہی ہے۔ خاص طور پر فو جد اری مقد ما ت میں سز ا و جز ا کا انحصا ر تفتیش پر زیا دہ ہو تا ہے اگر تفتیش نامکمل ہو یا کسی خاص فر یق کو مد د گا ر ہو تو فو جداری مقد مہ کمز ور پڑ جاتا ہے۔

فو جداری مقد مے میں سر کا ر فر یق ہو تی ہے اس لیے نامکمل اور خرا ب تفتیش کی وجہ سے کئی مطلو ب مجر م جو دہشت گر دی جیسے سنگین واقعا ت میں ملو ث ہو تے ہیں فائد ہ اٹھا جا تے ہیں اور قا نو ن کی گر فت سے نکل جاتے ہیں۔ ایسے مجر مو ں کو سز ا دینا ریا ست کے وجو د کے لیے چو نکہ بہت ضرور ی اور ناگز یر ہو تا  ہے اس لیے انتظامیہ کا یہ کا م ہے کہ وہ تفتیش ایسے فر ض شنا ص افیسر کے سپر د کر ے جو اپنے پیشے اور ملک کے ساتھ مخلص ہو اور مقد مے کی ہر پہلو سے، بار یک بینی سے اور پیشہ وارانہ انداز  سے تفتیش کر نے میں مہارت رکھتا ہو تاکہ ملز ما ن قا نو ن کی گر فت میں جکڑ جائیں اور وہ پھر ریاست دشمن عنا صر کے ساتھ ملکر ریاست کے خلا ف سازش نہ کر سکیں اور معاشر ے میں امن قائم ہوسکے۔

چند تجاویز درج ذیل ہیں۔1۔مقننہ جو کہ عو ام کے نما ئندے ہیں وہ اپنے عو ام کے لیے جد ید دور سے اہم اہنگ قا نو ن ساز ی کریں اور پر انے قو انین میں تر امیم لا ئیں تاکہ عو ام کے لیے جلد اور سستا انصا ف کا راستہ ہمو ار ہو سکے اور لو گو ں کا اپنے ریاستی نظام عدل پر اعتما د میں اضا فہ اور لو گ قا نو ن کو اپنے ہا تھ میں لینے کے بجا ئے قانو ن نا فذ کر نے والے اداروں پر اعتما د کر یں۔2۔  جیسا کہ ضا بطہ دیو انی 1908کے سیکشن 89Aمیں کہا گیا ہے کہ مقد ما ت کے جلد فیصلو ں کی خا طر Alternative Dispute Resolutionیا تنا زعات کے حل کامتبادل نظا م کو سرا ہا جائیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :