مشرف کیخلاف عوام کی نفرت

بدھ 9 اپریل 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

گزشتہ دنوں آرمی چیف کابیان کہ فوج اپنے وقار کا ہرحال میں تحفظ کرے گی کیونکہ حالیہ دنوں میں فوج کے بارے میں غیرضروری تنقید کی گئی جس پر فوجی افسرجوانوں کے تحفظات پائے جاتے ہیں چانچہ آرمی چیف کے اس بیان سے بعض عناصر پرویز مشرف کے معاملے کو جی ایچ کیو اور رائے ونڈ کو تقسیم ہونے سے تشبیہہ دے رہے ہیں جبکہ ماہرین کاخیال ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف عوام کی نفرت کو پاک فوج کے خلاف نفرت نہیں سمجھناچاہئے کیونکہ مشرف ایک آمرتھے جنہوں نے پاکستان اورفوج کو کئی طریقوں سے نقصان پہنچایا اَب وہ سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔

انہوں نے ججوں کو معطل کیا اُن کو پوری پاک فوج تصورنہیں کیاجاسکتا لہذا پاک افواج کو مشرف پرکی جانے والی تنقید کو اپنے اوپر تنقید کاگمان ہرگز نہیں کرناچاہئے کیونکہ کل تک سیاح وسفید کامالک 12مئی 2007کو کراچی میں قتل عام کو عوام کی طاقت قراردینے والا قوم کومکہ دکھانے والا آج اتنا کم ہمت پست حوصلے والا نکلا کہ عدالتوں کاسامنا کرنے سے کانپ رہاہے ۔

(جاری ہے)

متعدد بار حیلے بہانے سے عدالت میں پیش نہ ہونے کے طریقے آزمائے جاتے ہیں مگربات جب ملک سے باہرجانے کی ہو تو والدہ کی نازک حالت کاذکر کرکے ملک سے باہر فرارہونے کی تگ و دو میں سب سے آگے ہوتے ہیں مگر اس تگ و دو میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہسپتال سے چند قدم کے فاصلے پر عدالت میں اپنی علالت کے سبب پیش ہونے سے قاصر ہیں مگر اس بیماری کے ساتھ پریشانی کے عالم میں ملک سے باہرجانے کاجنون سَر پرسوارہے۔

افسو س صد افسوس مشرف اوراُس کے وکلاء کی ٹیم کیاپاکستانی عوام کو اتنا بے وقوف سمجھتی ہے یا سمجھے گی یقین نہیں آتا۔ اس موقع پر سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک نے پہلی بار قوم سے سچ بولا کہ والدہ کی بیماری کے وقت مجھے ا ن سے ملنے کے لئے وطن آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور میری ماں مجھے پکارتے پکارتے موت کے منہ میں چلی گئی تھی ۔ جیل میں قیدی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ جب میں جیل میں تھا اپنے والد کے جنازے میں شرکت کی اجازت کیوں نہیں دی گئی مجھ جیسے عام شہری اور طاقتور ریٹائرڈ جنرل مشرف کے مختلف قانون کیوں ہیں جبکہ اس نازک موقع پرحکومت کی جانب سے پرویز مشرف کی والدہ کو وطن واپس لانے کے لئے خصوصی طیارے کی پیشکش بھی ہوچکی ہے لہذا اَب پرویز مشرف اور اِن کی سازشی وکلاء کی ٹیم کو مشرف کے ملک سے باہرلے جانے والے اقدام سے ہاتھ کھینچ لینے چاہئیں کیونکہ سب کو ادراک ہے کہ ایک بار مجرم ملک سے باہر چلاگیا تو واپسی کاراستہ وہ بھول جاتا ہے چنانچہ عوام میں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے تودوسری جانب حالیہ انتخابات میں ہیوی مینڈٹ سے کامیاب ہونے والی (ن) لیگ کی حکومت عوام کی مخالفت، مشرف کانام آئی سی ایل سے نکالنے کے بارے میں سوبارسوچ کر پورے ملک میں ڈیل کی باتیں گردش کرنے کے خوف سے دوسوبار آئی سی ایل میں مشرف کانام رکھنے پر مجبورہوجاتی ہے لہذا اپنے وقار کو قائم دائم رکھنے کی خاطر حکومت یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ملک میں قانون سب کے لئے برابر ہے۔

قانون اورآئین کی حکمرانی کو ہرصورت یقینی بنایاجائے گا کیونکہ قانون کی حکمرانی پر چل کر ہی ملک ترقی کرسکتا ہے گویاموجودہ وفاقی حکومت مشرف غداری کیس کا منطقی انجام تک پہنچانے میں سنجیدہ نظرآتی ہے مگر دوسری جانب سماعت کے دوران پرویز مشرف کاکہناتھا کہ انہوں نے بطور صدر اور فوج سربراہ ملک کی خدمت کی ۔ انہوں نے جوکچھ بھی کیا ملک اور قوم کی بہتری کے لئے کیالہذا غداری کے لفظ کااستعمال اُن کے لئے تکلیف دہ ہے ۔

سوال یہ ہے توپھر مشرف کو والدہ کی علالت کے سہارے ملک سے باہرجانے پر اتنا واویلا کیوں؟ جبکہ اس کیس کے پراسیکیوٹرمحمداکرام شیخ کاکہنا ہے کہ اگر اس کیس کی بغیر کسی خلل یارکاوٹ کے تسلسل کے ساتھ سماعت کی جائے تو دوہفتے میں اس کیس کی سماعت مکمل ہوسکتی ہے ۔ لہذا اس تنازعے میں مشرف کی والدہ کی علالت پر قوم کی ہمدردی اُن کے ساتھ ہے مگر قانون سب کے لئے برابرہونے کے ناطے عوام اَب ہر صورت میں اس کیس کومنطقی انجام تک پہنچانے کی خواہش رکھتی ہے تاکہ آئندہ کے لئے آئین اورقانون کے علمداری کے تسلسل کو یقینی بنایاجائے اوریہ جب ہی ممکن ہے کہ آئین شکن کو نشانِ عبرت بنانے میں کوئی چیز عائید نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :