خواب اک دیوانے کا

بدھ 16 جون 2021

Noor Un Nisa

نورالنساء

سفر کا آغاز اک ایسے خواب سے شروع ہوتا ہے جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے شروع میں ہر بڑا خواب ہی ناممکن لگتا ہے
جب کبھی بھی کنویں کے مینڈیک کو دریا یا ندی کا خواب دکھائیں گے تو وہ خواب دکھانے والے پہ خوب ہنسیں گے، مذاق اڑائیں گے اور بلاآخر اسے خبطی کا نام دے دیں گے۔
کیونکہ وہ کنویں کے اسی گلے سڑے نظام کے عادی ہو جاتے ہیں کنواں چاہے دلدل ہی کیوں نہ بن جائے وہ اسی دلدل میں گھٹ گھٹ کے مر جائیں گے مگر اس سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہو نگے۔


انہیں سوچنے سے ہی ڈر لگتا ہے اندر سے بزدل ہوتے ہیں دراصل کوئ بزدل انسان بڑا خواب دیکھ ہی نہیں سکتا اگر غلطی سے دیکھ بھی لے تو جلد ہی اندر کے خوف سے،ناکامی کے ڈر سے یا لوگوں کے سامنے شرمندہ ہونے کے خوف سے وہ اپنے خواب سے دستبرداری اختیار کر لیتے ہیں۔

(جاری ہے)


خیر یہاں خواب دیکھنے کے حوالے سے ایسی بات بالکل بھی نہیں ہو رہی کہ آپ سارا وقت پلنگ پہ پڑے اپنے آپ کو کسی سلطنت کا ولی عہد تصور کیے اپنی تخیلاتی دنیا سے ہی باہر نہ نکلیں۔


بلکہ جو جاگتی آنکھ سے خواب دیکھتا ہے تو اس کا خواب اس میں اک آگ لگا دیتا ہے جو اسے راتوں کو بھی سونے نہیں دیتی۔
وہ آگ اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں اندھی آنکھوں سے نہیں بلکہ حقیقی نظر سے تو وہ آپ عمران خان میں دیکھ سکتے۔
درحقیقت تمام خواب ہی تخیلاتی ہوتے ہیں یہاں تک کہ آپ جہد مسلسل کر کے انہیں حقیقت میں بدلنے کی کوشش نہ کریں۔
جیسا کہ اقبال نے خواب دیکھا پاکستان کا جسے شروع میں
"A dream of a mad man"
کہا جاتا تھا کہنے والے بھی صرف فرنگی یا ہندو ہوتے تو کیا دکھ تھا مگر یہاں بھی بیشتر قافلے اپنے ہی نکلے مگر ثابت ہوا کہ کچھ خوابوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیتے ہیں۔


اگر نیت صاف ہو اور انسان مسلسل محنت کرے تو اللہ تو عدل کرنے والا ہے وہ کیوں نہ آپکو آپکی محنت کا صلہ دے گا جب کہ وہ اپنے بندوں پہ رحم کرنے والا ہے۔
وہ اک آزاد سرزمین کا خواب تھا جو کہ اللہ کہ فضل سے ایک صدی کی مسلسل محنت اور قربانیوں کے بعد پورا ہوا اور آج ایک آزاد سوچ کا خواب ہے جو کہ انشااللہ جلد یا بدیر پورا ہوگا۔
خواب وہ بھی پاکستان کا تھا خواب یہ بھی پاکستان کا ہے۔


9 سال کا بچہ جب اسکی عمر کھلونوں سے کھیلنے کی ہوتی ہے اور وہ دنیا کا عظیم کرکٹر بننے کا خواب دیکھتا ہے وہ بھی اس یقین سے کہ بننا تو میں نے کرکٹر ہی ہے لیکن کب؟ یہ معلوم نہیں۔
تو یقینا یہ کوئ عام بچہ نہیں ہے۔
18 سال کی عمر میں یہ اپنا پہلا انٹرنیشنل کرکٹ ٹیسٹ میچ کھیلتا ہے اور بری طرح ریجیکٹ ہوا۔
مایوس نہیں ہوا ہمت نہیں ہاری بلکہ اب دوسرے ملک دنیا کی بہترین یونیورسٹی آکسفورڈ میں جاتا ہے۔


5 سال بعد دوبارہ کرکٹ میں واپسی ہوتی ہے اور اب کی بار تو کرکٹ کی دیوی ان پر ایسے مہربان ہوتی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی دنیائے کرکٹ پہ اسکا نام راج کرتا ہے اسکی شہرت کے ستارے عروج پر ہوتے ہیں وہ دنیا کا بہترین آل راونڈر اور تیز ترین بالر بنتا ہیے وہ نہ صرف دنیا کا بہترین کھلاڑی ثابت ہوتا ہے بلکہ ایک بہترین کپتان بھی بنتا ہے ۔
تمام شاندار کھلاڑی ضروری نہیں کہ اچھے کپتان بھی ہوں مگر وہ ایک بہترین کپتان ثابت ہوا۔


اسکی سب سے اہم وجہ تو اسکا لینڈنگ بیہیویر ہے وہ ہمیشہ لیڈ کرتا ہے لیڈ ہوتا نہیں ہے کچھ لوگ پیدا ہی لیڈرشپ کے کیے ہوتے ہیں
'He is born to lead'
دوسرا اس کی کرشماتی شخصیت ہے لوگ اسے چاہتے ہیں وہ جب اپنی شہرت کے عروج پر تھا باقی کھلاڑیوں کی نسبت ان سے عمر میں بڑا بھی تھا اور ان میں سے بعض کو کرکٹ میں متعارف کروانے والا بھی وہ تھا ایسے میں ان کا اپنے کپتان سے مرعوب ہو جانا اس کی عزت و احترام کرنا اس کی ہر بات ماننا کوئ انہونی نہیں تھی۔


وہ انکے لیے اس وقت ایک رول ماڈل تھا جیسے وہ کرتا تھا وہ اسے فالو کرتے تھے۔
آج بھی اس کے ساتھ کھیلنے والے کھلاڑی جب کبھی بھی اس کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے لہجے سے اپنے کپتان کے لیے محبت و احترام کے جذبات ٹپک رہے ہوتے ہیں۔
کرکٹ میں اس نے تاریخ رقم کی جو چیزیں ناممکن لگ رہی تھیں وہ اکیلا کہتا رہا کہ یہ ممکن ہے یہ ہو جائے گا
اس نے پہلی بار ہندوستان کو ہندوستان میں ہرایا اس نے ویسٹ انڈیز اس وقت کی بہترین ٹیم جسے اس وقت دنیا کی کوئی ٹیم ہرا نہیں سکتا تھا انہیں کی سرزمین پہ انہیں خود سے جیتنے نہ دیا
وہ بہترین فیصلے کرتا تھا بے شک وہ مشکل ہی کیوں نہ ہوتے اور پھر ان فیصلوں پہ ڈٹ جاتا تھا اس میں انتہا کی فراست اور سمجھ بوجھ ہے وہ عام آدمی سے آگے کی سوچتا ہے اور مختلف سوچتا یہ اس کی سوچ ہی ہے جو اسے ہارنے نہیں دیتی جب سب کہ رہے تھے کہ یہ ورلڈکہ کپ پاکستان کے لیے جیتنا نا ممکن ہے وہ اپنے آپ کو تب بھی ورلڈکپ کا فاتح ہی تصور کرتا ہے اور بلاآخر وہ فاتح ٹہرتا ہے۔

۔۔!
جب کوئی انسان ہار مانتا ہی نہ ہو تو سوائے اس ہستی کے جس کے ہاتھ میں عزت و ذلت ہے اسے کچھ نہیں ہرا سکتا وہ ہستی ظالم نہیں ہے اس کے کچھ قوانین ہیں جو اس پہ عمل کرے گا وہ اوپر آجائے گا۔
اس شخص کو دنیا کا کوئی آدمی تو کیا بلکہ ہار بھی نہیں ہرا سکتی ہار اس شخص کے سامنے خود ہاتھ باندھے شکست ماندہ کھڑی اسے جیت کے تاج پہنتے حسرت سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :