
کسے یاد رکھوں ، کِسے بھول جاوٴں
پیر 21 اپریل 2014

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
آجکل موبائل فون کمپنیاں اپنے صارفین کو زیادہ سے زیادہ بیلنس استعمال کرنے کے لیے طرح طرح کے انعامات کا لالچ دیتی رہتی ہیں ۔شاید چھوٹے میاں صاحب نے بھی انہی انعامی سکیموں سے متاثر ہو کر ایک ”مزیدار“ انعامی سکیم کا اعلان کر دیا ۔اُنہوں نے اِنرولمنٹ مہم 2014ء کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ جس حلقے کا ایم پی اے اپنے حلقے میں سو فیصد داخلے کروائے گا ، اُسے وزیرِ تعلیم بنایا جائے گا ۔ہم چونکہ ایم پی اے نہیں اِس لیے ہمارا وزیرِ تعلیم بننے کا کوئی چانس بھی نہیں اورجب چانس ہی نہیں تو پھر یہ کہنے میں کیا ہرج ہے کہ” خادمِ اعلیٰ صاحب! آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے “ ۔البتہ ہم یہ ضرورسوچ رہے ہیں کہ وزیرِ تعلیم تو ایک ہی ہوتا ہے اور اگر سارے ایم پی ایز نے اپنے اپنے حلقوں میں سو فیصد داخلے کروا دیئے تو کیا پنجاب میں ساڑھے تین سو سے زائد وزرائے تعلیم ہونگے؟۔ایک اور بات جو ہمارے ذہنی خلجان کا باعث بن رہی ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر تحریکِ انصاف کا کوئی ایم پی اے محض شرارتاََاپنے حلقے میں سو فیصد داخلے کروا کے میاں صاحب سے وزارتِ تعلیم کے قلمدان کا مطالبہ کر بیٹھا تو پھر یقیناََ خادمِ اعلیٰ صاحب کا حشر بھی شیخ رشید احمد جیسا ہونے کا قوی امکان ہے ، جنہوں نے ڈالرز کے ریٹس اٹھانوے روپے تک آنے کی صورت میں اپنے نشست سے مستعفی ہونے کی ”بڑھک“ ماری اور اسحاق ڈار صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ڈالر کے ریٹس 98 کیا 96 روپے تک جا پہنچا دیئے لیکن شیخ صاحب ہیں کہ ابھی تک اپنی سیٹ سے چمٹے ہوئے ہیں ۔اُدھر ہمارا ”شرارتی“ الیکٹرانک میڈیا دِن میں کئی کئی بار یہ ”بڑھک“ نشر کرکے شیخ صاحب کا ”حشر نشر“ کرتا رہتا ہے۔
ویسے اگر شیخ رشید صاحب لال حویلی میں ”پیشین گوئیوں“ کی دوکان کھول لیں تو اُن کی ”دوکانداری“ چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں کیونکہ وہ بھولے بھالے عوام کو بیوقوف بنانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔اُن کی کوئی بھی پیشین گوئی کبھی درست ثابت نہیں ہوئی ، اِس کے باوجود بھی نیوس چینلز اُنہیں بڑے شوق سے بلاتے اور عوام بڑے شوق سے سُنتے ہیں۔ اُنہوں نے بار بار فرمایا کہ حکمرانوں میں پرویز مشرف کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جرأت ہی نہیں لیکن حکمرانوں نے اُنہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا ۔پھر کہا کہ فوج پرویز مشرف پر قائم مقدمے کو شدت سے نا پسند کرتی ہے لیکن فوج نے اُنہیں اپنے ہاتھوں سے پہلے خصوصی عدالت میں بھیجا اور پھر اے ایف آئی سی سے ڈسچارج بھی کر دیا ۔پھر خواجگان کے ”متنازع “ بیانات پر شیخ صاحب کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور اُنہوں نے یہ فرمانا شروع کر دیا ”میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اپریل کا مہینہ حکمرانوں پہ بھاری ہے اور 2014ء میں میاں نواز شریف صاحب کو یا تو ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا یا پھر وہ امیر المومنین بن جائیں گے “۔لیکن یہ مہینہ وزیرِ اعظم صاحب پر اِس طرح سے” بھاری“ پڑا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اُنہیں کاکول پاسنگ آوٴٹ پریڈ میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی دعوت دے ڈالی اور میاں صاحب نے وہ دعوت قبول بھی کر لی ۔شیخ صاحب تو خیر ہیں ہی لیکن ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کسی سے کم نہیں جو اُس ”پھَپھے کُٹنی“ کا کردار ادا کر رہا ہے جو پورے محلے میں لگائی بجھائی کر کے لطف اندوز ہوتی رہتی ہو ۔آجکل الیکٹرانک میڈیا سیاستدانوں کے کئی کئی سال پرانے بیانات نشر کرکے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے جلتی پہ تیل ڈال رہا ہے ۔حکومت یہ کہہ کہہ کے تھک چکی کہ تمام قومی امور پر سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا پر صرف جنگ و جدل سے بھرپور ”شاہکار“ ہی نظر آتے ہیں ۔ نواز زرداری ملاقات کے دوران بھی اِس تناوٴ کی بازگشت اُس وقت سنائی دی جب جنابِ آصف زرداری نے اِس کا ذکر کیا۔تب میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تناوٴ الیکٹرانک میڈیا پر ہے یا پھر کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا رہا اور قوم و عسکری قیادت ، تمام ملکی معاملات ، خصوصاََ طالبان سے مذاکرات یا جنگ پر یکسوٴ نظر آئی۔ اب وہ تمام افواہیں ایک ایک کرکے دَم توڑرہی ہیں جو چائے کی پیالی پر طوفان اٹھانے والوں نے پھیلا رکھی تھیں ۔آخر میں یہ کہ آخر طالبان اِس خوش فہمی میں کیسے مبتلاء ہو گئے کہ وہ حکومت کا مقابلہ کر سکتے ہیں ؟۔ہنسی آتی ہے طالبان ترجمان کے اِس بیان پر کہ ”ساتھیوں کی مخالفت کے باوجودجنگ بندی کا تحفہ دیا لیکن حکومت نے مناسب جواب نہیں دیا“۔شاید طالبان کو ادراک ہی نہیں کہ اچھّی بھلی عوامی اور سیاسی مخالفت کے باوجود حکمرانوں نے طالبان کو مذاکرات کا تحفہ دیا لیکن طالبان نے اسے حکومت کی کمزوری سمجھ لیا ۔وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر طالبان اپنے ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے تو پھراُن کا قصّہٴ پارینہ بن جانا اظہر من الشمس ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.