
خواب جوبکھرگیا
جمعرات 31 مارچ 2016

پروفیسر رفعت مظہر
کسی زمانے میں ہاکی ہماراقومی کھیل ہواکرتی تھی لیکن پھراُس کوایسا زوال آیاکہ ”اب اُسے ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبالے کر“۔
(جاری ہے)
پچھلے تین چار ماہ سے پوری قوم کچھ زیادہ ہی ”کرکٹ ڈینگی“ میں مبتلاہوچکی ۔اب یہی دیکھ لیں کہ جب کبھی بھارت سے میچ ہوتاہے توپوری قوم کاجذبہ وجنوں اپنے عروج پرہوتا ہے اوراِس جنوں کو دوآتشہ کرتاہے ہمارا الیکٹرانک میڈیا۔ ایک جنگ کاسا سماں ہوتا ہے اور”ہم ہیں پاکستانی ،ہم توجیتیں گے“ جیسے نغموں سے دلوں کو گرمایا جاتاہے ۔ویسے توحکمرانوں کا خزانہ ”بجلی“ نامی نایاب شے سے تہی ،قوم روتی پیٹتی اور ”رَولا“ ڈالتی سڑکوں پر نکل بھی آئے توحکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی لیکن جس دِن پاک بھارت میچ ہو ،حکومت اعلان کردیتی ہے کہ پورے ملک میں کہیں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی ۔ہمیں بَس کرکٹ کہ یہی ایک ادابھاتی ہے کہ اُس دِن ”مَرجانی“ لوڈشیڈنگ سے نجات مِل جاتی ہے۔ اِس کرکٹ ڈینگی نے پچھلے کئی ماہ سے پاکستانیوں کو”مخبوط الحواس“ کررکھا ہے ۔پہلے بھارت کو”منتوں تَرلوں“ سے منانے کی کوشش کی گئی ،ہمارے چیئرمین پی سی بی اورچڑیا والے صاحب بھارت کومنانے انڈیا جا پہنچے لیکن پھر ہوایہ کہ ”بڑے بے آبروہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے“ ۔چیئرمین پی سی بی نے بہرحال حوصلہ نہ ہارااور آخری وقت تک یہی کہتے رہے کہ انڈیاکی طرف سے جواب کاانتظار ہے۔ جب بھارت نے ٹَکاسا جواب دے دیاتو ہماری غیرت بھی جاگ اُٹھی اورہم نے بھی کہہ دیاکہ بھارت میں ہونے والے T-20 ورلڈکپ میں شرکت کاابھی فیصلہ نہیں کیا ۔ پھراچانک ہماری بھارت سے محبت جاگ اُٹھی اور ہم نے سب کچھ بھُلاکے بھارت یاتراکی ٹھان لی ۔اُس وقت ہمارے کپتان شاہدآفریدی نے دَبے لفظوں میں ورلڈکپ جیتنے کے بارے میں جو کچھ کہااُس کامفہوم کچھ یوں بنتا تھاکہ ”ایں خیال است ومحال است وجنوں“ یعنی ایساسوچنا بھی احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے لیکن ہم نے تواپنے خواب سجالیے تھے کیونکہ ہم ٹھہرے ”کرکٹ دیوانے“۔
T-20 ورلڈ کپ کاپہلا معرکہ بنگلہ دیش کے ساتھ ہوا جسے ہم نے آسانی سے سَرکر لیا ۔بنگلہ دیش سے فتح کے بعدتوہمیں یقین ہوچلاکہ ورلڈکپ ”آوے ای آوے“۔ ہم نے تومنصوبہ بھی باندھ لیاکہ جب شاہدآفریدی ورلڈکپ لے کرپاکستان آئے گاتو سب سے پہلے ہم ہی ”وزیرِاعظم شاہدآفریدی“ کانعرہ بلندکریں گے کیونکہ ہمیں تو اب کرکٹ کے کپتانوں کو ہی پاکستان کاوزیرِاعظم بنتادیکھنے کی خواہش سی ہوچلی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ خواہش ابھی تک ناتمام ہے ،لیکن مایوسی چونکہ کفرہے اِس لیے ہم بھی مایوس نہیں اور ہمیں یقین کہ ایک خان نہ سہی کوئی دوسرا خان توضرور ورلڈکپ جیت کرہمارا وزیرِاعظم بنے گا۔اسی لیے ہم نے شاہدآفریدی سے اُمیدیں باندھ لیں کیونکہ وہ بھی خان ہے ۔چلیں شاہدخاں آفریدی نہ سہی ،شرجیل خاں تو ہے۔
بھارت کے ساتھ ”جوڑ“ پڑنے سے پانچ چھ دِن پہلے پورے ملک میں کرکٹ ڈینگی اپنے عروج پرپہنچ گیا۔ الیکٹرانک میڈیا کوسوائے کرکٹ کے کچھ دکھائی دیتاتھا نہ سجھائی ۔آخرکاروہ دِن آن پہنچاجس کاہمیں شدت سے انتظار تھا۔ عمران خاں، وسیم اکرم اورکچھ دوسرے کرکٹ سٹارز پہلے ہی ٹیم کاحوصلہ بڑھانے اوراُسے ”ٹِپس“ دینے بھارت پہنچ چکے تھے ۔میچ شروع ہواتو دِلوں کی دھڑکنیں تیزہونا شروع ہوگئیں ،جب ختم ہواتو اِن دھڑکنوں میں غصّہ اورشرمندگی بھی شامل ہوگئی کیونکہ ہم میچ ہارچکے تھے۔ اِس قوم میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ سانحات کوبھلا دینے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ ہم تو ”سکوتِ ڈھاکہ“ جیساسانحہ بھی ”ڈکار“ چکے پھربھلا بھارت سے T-20 شکست کی کیاحیثیت۔ اگلے ہی دِن ہم ”ہے جذبہ، جنوں تو ہمت نہ ہار“ کہتے ہوئے ایک دفعہ پھراِس اُمیدپر میدان میں کود پڑے کہ شکست نیوزی لینڈکا مقدر بن چکی۔لیکن ہوایہ کہ نیوزی لینڈنے ہمارا”مَکوٹھَپ“ دیااور ہمارے سارے خواب بکھرگئے ۔حیرت ہے اِس قوم پر کہ یہ صرف ایک دِن کے وقفے کے بعداپنے” بکھرے خوابوں“ کوسمیٹتی نظرآئی۔ اب کی بارسوچوں کامحور یہ تھاکہ اگرپاکستان آسٹریلیاکو شکست دے دے اورآسٹریلیا بھارت کوتو پھرہم سیمی فائنل میں پہنچ سکتے ہیں۔ جوازیہ تراشے جانے لگے کہ 1992ء کے ورلڈکپ میں بھی پاکستانی ٹیم کوایسی ہی صورتِ حال کاسامنا تھا، پھربھی ہم ورلڈکپ لے اُڑے ۔اگرتب ایساممکن ہوگیا تواب کیوں نہیں ؟۔ 25 مارچ کوقوم ایک دفعہ پھرٹی وی سکرینوں کے ساتھ جُڑی بیٹھی تھی لیکن ہوایہ کہ ”خواب تھاجو کچھ کہ دیکھا ،جوسُنا افسانہ تھا“۔ ہزیمت ایک دفعہ پھرپاکستانی ٹیم کے حصّے میںآ ئی اوروہ چاروں شانے چِت ۔ورلڈکپ جیتنے کاخواب بکھرگیالیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ قوم حوصلہ ہارگئی۔ ہماراجذبہ وجنوں اب بھی جواں ہے ،یہ الگ بات کہ اب اُس کارُخ کرکٹ ٹیم اورکرکٹ بورڈکی طرف ہوگیا ہے ۔ہر کوئی مُنہ سے آگ اُگل رہاہے اوراِس میں ہمارے سیاستدان بھی ”حصّہ بقدرِجُثہ“ ڈال رہے ہیں ۔ہمیں خوشی ہے تواِس بات کی کہ پاکستانی ٹیم نے ہارکر تحریکِ انصاف ،پیپلزپارٹی اورنواز لیگ کوکم ازکم ایک نکتے پرتو ایک صفحے پرکر دیا ۔سبھی کہہ رہے ہیں کہ کرکٹ ٹیم ہی نہیں کرکٹ بورڈکی بھی چھٹی کروادی جائے ۔۔۔۔ حرفِ آخریہ کہ اگرپوری قوم اسی جذبہ وجنوں کے ساتھ ملک وملّت کی ترقی میں جُت جائے تواندازہ خودہی کرلیجیے کہ وہ کون ساہمالیہ ہے جسے ہم سَرنہیں کرسکتے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.