
قصہ ایک شناختی کارڈ کا
ہفتہ 7 مئی 2016

پروفیسر رفعت مظہر
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
جونہی ہم نادرا کے ٹاؤن شپ (کالج روڈ) کے ایگزیکٹو آفس کے قریب پہنچے تو سب سے پہلا مسئلہ گاڑی کی پارکنگ کا پیش آیا۔ ہم تو ایگزیکٹو آفس اس لیے گئے تھے کہ چھوٹے موٹے ”ایگزیکٹو“ ہم بھی اپنے آپ کو سمجھتے ہیں، اسی لیے عامیوں کے لیے بنائے گئے آفس میں جانا اپنی توہین سمجھا ۔
(جاری ہے)
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ہم کبھی ایک ٹانگ اور کبھی دوسری ٹانگ کے سہارے کھڑے ہو کر جب تھک چکے اور ٹانگوں نے بھی ہمارابوجھ اٹھانے سے انکار کردیاتو سوچا کہ واپس چلتے ہیں اور گھر سے مستقل پتہ ”قبرستان“ لکھ کر چیئرمین نادرا کو بھجوا دیتے ہیں کہ مستقل پتہ تو بہرحال ہر کسی کا وہی ہے۔ ابھی ہم مراجعت کا سوچ ہی رہے تھے کہ اسکرین پرہمارا ٹوکن نمبر جگمگانے لگا۔ ہم نے ہمت کر کے کاؤنٹر تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن بیکار۔ کاؤنٹر کی صورتِ حال یہ کہ لگ بھگ8 فٹ لمبی اور 3 فٹ چوڑی جگہ پر تین کاؤنٹر بنے ہوئے تھے۔ ایک کاؤنٹر ٹوکن کا دوسرا درخواستیں جمع کروانے کا اور تیسرا شناختی کارڈ ڈلیوری کا۔ ڈیڑھ مرلے کے ایگزیکٹو آفس میں جب تین سو افراد گھسنے کی کوشش کریں تو حالت کیا ہو گی، آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے۔ بہرحال پوری کوشش کے باوجود ہم کاؤنٹر تک نہ پہنچ سکے اور سکرین پر اگلا ٹوکن نمبر جگمگانے لگا۔ یہ دیکھ کر ہم بھی طیش میں آ گئے اور ہماری دیکھادیکھی اور کئی لوگ بھی ہمارے ہم آواز ہو گئے (حالانکہ بے چارے عملے کا” ککھ“ قصور نہیں تھا۔) جب لوگ ہماری قیادت میں اکٹھے ہونے لگے، تب ہمیں احساس ہوا کہ کارواں کیسے بنتا ہے اور” بھیڑچال“ کسے کہتے ہیں۔ بہرحال اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ہمارے کاؤنٹر تک پہنچنے کا راستہ صاف ہو گیا اور ہم بھی ”اصلی تے وڈا“ ٹوکن لینے میں کامیاب ہو گئے۔ بعدازاں کمپیوٹر پر تصویر کھنچوانے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ ایک اڑھائی فٹ کے کیبن میں ایک شخص ایسے سکڑا سہما بیٹھا تھا جیسے اسے حبسِ دوام کی سزا سنائی گئی ہو۔ اُس نے ہمیں سٹول پربٹھا کر ہماری تصویر بنائی ۔پچھلے ڈیڑھ گھنٹے میں یہی چند لمحات تھے جب ہمیں بیٹھنا نصیب ہوا ۔ہمارا جی تویہی چاہتاتھا کہ وہیں بیٹھے رہیں لیکن اُس ”مسکین صورت“ نے ہمیں وہاں سے اُٹھ جانے کااِذن دے دیا ۔طوہاََ وکرہاََ وہاں سے اُٹھے اورانتہائی لجاجت سے سوال کیاکہ ”اب کہاں جانا ہے؟“۔ جواب ملا ”کیبن سے باہر جاکر کھڑے ہوجائیں اورجس طرف سے نام کی ”منادی“ آئے اُسی طرف سَرپَٹ ہوجائیں ۔ہم نے جَل بھُن کرکباب ہوتے ہوئے کہا ”یہ ایگزیکٹو آفس تو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے اور آپ یوں بات کررہے ہیں جیسے یہ ایکڑوں پرمحیط ہو “۔ کیبن مین نے ہمیں صرف گھورنے پرہی اکتفا کیا اور ہم بھی مزید بحث کیے بغیر کیبن سے باہر نکل آئے۔
کیبن سے باہرنکل کر دیکھا کہ سارے ”ایگزیکٹو“ ایک لائن میں کھڑے اپنا نام پتہ بتلا رہے تھے۔ تب ہمیں اپنا بچپن یاد آنے لگا جب اسکول میں ہم باجماعت پورے زوروشور سے ”اک دونی دونی، دو دونی چار“ رٹا کرتے تھے۔ یہاں بھی ”ایگزیکٹو“ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے نظر آئے۔ہم نے بھی کھڑے کھڑے اپنا سارا”بائیوڈیٹا“ بیان کیا ۔”بائیوڈیٹا“ بیان کرتے ہوئے ہمیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہم کسی ”تھانیدار“ کو اپنا بیانِ حلفی ریکارڈ کروا رہے ہوں ۔چوتھا مرحلہ فارم کا حصول تھا۔ یہاں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ایک نوجوان ہاتھ میں شناختی کارڈ فارموں کا پلندہ لیے نام پکارنے لگا۔ جس کا نام اس نوجوان کی ”زبان مبارک“ پر آ جاتا اس کی آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھ جاتی اور وہ فارم کی طرف یوں لپکتا جیسے ”ابھی یا کبھی نہیں۔“ فارم کے حصول کے بعد پھر اُسی خجل خواری میں فارم جمع کروایا ۔فارم جمع کروانے کے بعد نادرا کا نادرا شاہی حکم صادر ہوا۔”دس دن بعد آنا“۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.