
وہ سیاہ دِن
پیر 17 اکتوبر 2016

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
بیماری کا بہانہ تو محض عدالت کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے لیے تھا ۔جونہی ای سی ایل سے اُس کا نام خارج ہوا ، وہ ٹَپ ٹَپ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتا یہ جا ،وہ جا۔ لوگوں نے اُس کے جانے کے بعد کہا ”خَس کم ،جہاں پاک“۔
ہر ڈِکٹیٹر کواپنی مقبولیت کا زعم ہوتا ہے اور یہ زعم خود بخود پیدا نہیں ہوتا بلکہ اِس کے پیدا کرنے والے اور 10بار وردی میں منتخب کروانے والے ضمیر فروش تھوک کے حساب سے مِل جاتے ہیں۔
عجیب اتفاق ہے کہ اِس سال 12 اکتوبر کو یومِ عاشور تھا ،وہ دِن جب ایک آمرِ مطلق نے کربلا کی ریت کو نواسہٴ رسولﷺ کے پاکیزہ لہو سے رنگین کر دیا اور 12 اکتوبرہی وہ دِن تھا جب یزیدیت کے علمبردار پرویز مشرف نے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا ۔وہ صرف میاں فیملی ہی نہیں بلکہ ملک وقوم کا بھی مجرم ہے ۔ اُس نے ڈالروں کے عوض نہ صرف پاکستانیوں کو بیچا بلکہ پاکستان کو ایک ایسی اندھی اور بے چہرہ جنگ میں جھونک دیا جس کا خمیازہ ہم پتہ نہیں کتنی دیر تک بھگتتے رہیں گے۔ یہ دہشت گردی ،بم دھماکے اور خودکُش حملے اُسی کے دَور کی پیداوار ہیں۔پاکستانی طالبان نامی ناسور بھی اُسی کے دَور کی پیداوار ، جس کا نتیجہ یہ کہ ہم 60 ہزار سے زائد جانیں گنوا چکے ،اپنی معیشت کو تباہ کر چکے اور اندھی جنگ میں 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان کر چکے لیکن تا حال امن وسکون سے محروم ہیں ۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے سَر پر دستِ شفقت رکھنے والا بھی پرویزمشرف ہی تھا اور پھرسبھی نے دیکھا کہ ہر روز عروس البلاد میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی ، ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری اور پرچی مافیا کا عروج رہا ۔ اُس کے دَور میں ایم کیوایم نے جو چاہا ،وہ کیا لیکن اُس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ تھا کیونکہ آمرِ مطلق کی ساری طاقت اُس کے ساتھ تھی ۔ وہ خود تو اپنی بیماریوں کا بہانہ بنا کر بیرونِ ملک فرار ہوچکا لیکن پاکستان کو ایک لامتناہی اذیت میں گرفتار کر گیا ۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا پرویزمشرف اکیلا ہی ملک وقوم کا مجرم ہے ؟۔ کیا وہ نہیں جو اُس کے دست وبازو بنے پھرتے تھے ؟۔ کیا وہ نہیں جو اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور اُس کے ہر حکم پر سَر جھکاتے تھے ۔ ۔۔۔اگر وہ بھی مجرم ہیں تو پھر چلیں پرویزمشرف تو بھاگ گیا ،باقی سب تو یہیں پر ہیں۔اُن سے ملک کی بربادی کا حساب کب لیا جائے گا اور کون لے گا؟۔
اللہ بھلا کرے شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل راحیل شریف کا جن کے عزمِ صمیم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی، اِس کے باوجود بھی ابھی بہت سا کام باقی ہے ۔ دہشت گرد اب بھی کہیں نہ کہیں اپنی موجودگی ظاہر کر رہے ہیں لیکن جنرل صاحب تو اگلے ماہ ریٹائر ہو کر گھر جا رہے ہیں ۔ کیا وہ مطمئن ہیں کہ اُنہوں نے اپنے حصّے کا کام کر دیا۔ اگر نہیں تو پھر وہ شدید ترین عوامی اصرار کے باوجود اپنی ریٹائرمنٹ پر زور کیوں دے رہے ہیں؟۔۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.