
چورمچائے شور
جمعہ 9 دسمبر 2016

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارت کے ”بغل بچے“ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے نرینددر مودی کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی انتہا کر دی ۔ وہ یہ بھی بھلا بیٹھا کہ ہم گزشتہ تیس سالوں سے تیس لاکھ سے زائد افغانیوں کو پناہ دیئے بیٹھے ہیں۔ اِن زبردستی کے مہمانوں پر ہم 200 ارب ڈالر سے زائد صرف کر چکے ہیں جو پاکستان کے کل بیرونی قرضے کا تین گنا بنتا ہے ۔ اُسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان کے ٹھکانے ہیں جنہیں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ تربیت بھی دیتی ہے ، اسلحہ بھی اور پیسے بھی۔ افغان صدر نریندرمودی کی شہ پر ”بونگیاں“ مارتا رہا ۔ وہ ایک بات کہتا اور پھر دوسرے ہی لمحے اپنی ہی کہی گئی بات کی تردید کر جاتا۔ اُس نے کہا ”پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو وہ بھاگ کر افغانستان آ جاتے ہیں“۔ پھر اُس نے کہا ”پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا“۔ایک طرف اُس نے پاکستان کے افغانستان کے لیے اعلان کردہ پچاس کروڑ ڈالر ز پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے رکھ لیں جبکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا ”ہمیں ایک دوسرے کے خلاف طعنہ زنی اور الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے“۔ اب ایسے مخبوط الحواس شخص کی باتوں پر کون یقین کرے ۔ اُس کے لیے تو بَس اتنا ہی کہنا کافی ہے ”شرم تم کو مگر نہیں آتی“۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم آخر کب تک اِن تیس لاکھ زبردستی کے افغان مہمانوں کو پناہ دیئے رکھیں گے جن کی دوسری نسل بھی اب پَل بڑھ کر جوان ہو چکی ہے اور لَگ بھگ دَس لاکھ افغانی پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرکے پاکستان کے مختلف حکومتی اور نِجی اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو ہم اپنی غربت کا ڈھنڈورا پیٹ کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ زبردستی کے مہمان ، جن کے بارے میں بِلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کے بہت سے خفیہ ٹھکانے انہی افغانیوں کی بستیوں میں ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی اولین فرصت میں اِن لوگوں کو اِن کے ملک واپس بھیجیں تاکہ ہماری معیشت سے یہ زبردستی کا بوجھ ہٹ جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر سارے جہاں کا درد ہمارے ہی جگر میں کیوں ہے؟۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے بھی تمام اخلاقی اور سفارتی آداب کو پسِ پشت ڈال کرخباثتوں بھرا خطاب کیا۔ حسبِ سابق اُس کی تان پاکستان کے خلاف الزام تراشیوں پر ٹوٹتی رہی ۔ اُس نے کہا کہ صرف دہشت گردوں کا ہی نہیں ، اُن کو پناہ دینے والوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے ۔ اُس کا اشارہ واضح طور پر پاکستان کی طرف تھا اور الزام وہی گھِسا پِٹا کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ساٹھ ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ دے چکے جن میں پاک فوج کے چھ ہزار سے زائد جرّی جوان بھی تھے ۔ بلا شبہ دہشت گردی کے پیچھے چھپے ہاتھ کو کاٹنے سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے ۔ یہ ہاتھ اتنا خفیہ بھی نہیں ۔ صاف عیاں ہے کہ نریندر مودی سے بڑا دہشت گرد کوئی ہو ہی نہیں سکتا ، جس کے مُنہ کو مسلمانوں کے خون کی چاٹ لگ چکی ہے ۔ آر ایس ایس کے اِس نمائندے نے گجرات میں مسلمانوں کا جو قتلِ عام کیا ، وہ تاریخ کا حصّہ ہے اور اب بھی پاکستان ، خصوصاََ بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے اُسی کا ہاتھ کار فرما ہے ۔ اکھنڈ بھارت کا احمقانہ خواب دیکھنے والا یہ شخص مسلمانوں کا بَدترین دشمن ہے اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کو عین عبادت سمجھتا ہے ۔ ایک دفعہ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر کسی صحافی نے مودی سے سوال کیا تھا کہ کیا اُسے اِس قتلِ عام پر دُکھ نہیں ہوا تو اُس نے جواب دیا تھا ” اگر میری گاڑی کے نیچے کُتّے کا پِلّا آ جائے تو دُکھ تو ہو گا“۔ ایسی گھٹیا سوچ رکھنے والے شخص کے مُنہ سے دہشت گردی کے خاتمے کی باتیں سُن کر عجیب محسوس ہوتا ہے۔
روسی مندوب نے نریندر مودی اور اشرف غنی کے الزامات کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سرتاج عزیز نے بہترین خطاب کیا ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ روس اِن الزامات سے لا تعلقی کا اظہار کرتا ہے ۔ ہم یہاں دوستی کے لیے آئے ہیں ، الزام تراشی کے لیے نہیں۔ ایک طرف تو روس کا یہ رویہ ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی خفیہ پناہ گاہیں اب بھی موجود ہیں ۔ پاکستان ، روس اور ایران کا طالبان پر اثرورسوخ ہے جو افغانستان کے سیاسی استحکام کے لیے رکاٹ اور خطرہ ہے ۔ یوں تو امریکہ ہمارا دوست اور اسٹریٹیجک پارٹنر ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اُس نے کبھی بھی پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ، اِس لیے یہی دُعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ ایسے دوست سے بچائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.