
کب تک ۔۔۔۔۔آخر کب تک
پیر 10 اپریل 2017

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
روس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ امریکہ جنگ سے ایک قدم دور ہے اور آئندہ شام کے خلاف کسی بھی کارروائی کے لیے امریکہ کو روس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
روس نے بھی اپنا جنگی بحری بیڑا بحیرہ اسود میں بھیج دیا ہے۔ گویا وہ دن دور نہیں جب شام میدانِ جنگ ہوگا اور وہیں پر امریکہ اور روس زورآزمائی کریں گے۔اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو یہ سب کچھ عالمِ اسلام کا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ اور فرقہ واریت کے ناسور نے اسلامی دُنیا کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ 39 اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کو یوں تو دہشت گردی کے خلاف ”اکٹھ“ کا نام دیا گیا ہے لیکن اس میں ایران‘ عراق‘ شام اور یمن کو شامل نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممالک دہشت گردی سے محفوظ ہیں؟ کیا یہاں دہشت گردانہ حملے نہیں ہوتے؟ اگر واقعی 39اسلامی ممالک کی افواج دہشت گردی کے خلاف ہی اکٹھی ہوئی ہیں تو پھر تو یہ ممالک سب سے زیادہ ”داعش“ کے نشانے پر ہیں۔ بلکہ دوسرے اسلامی ممالک سے بھی بڑھ کر ان کی مدد کی جانی چاہیے۔ لیکن ان ممالک کو تو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ ایسے میں اگر ایران نے پاکستانی شمولیت پر اعتراض کیا ہے تو کچھ غلط بھی نہیں کیا۔ لیکن ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ”آبیل مجھے مار“ پر ہی عمل کرتے ہیں۔
ہمارا ایک پڑوسی افغانستان ہے جہاں ہمارا جذبہٴ جہاد عروج پر تھا لیکن ہوا یہ کہ ساری دہشت گردی سمیٹ کے بیٹھ رہے۔ دوسرا پڑوسی بھارت ہے جس نے آج تک پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا۔ وہ پاکستان توڑنے کا ہر حربہ استعمال کرتا رہتا ہے۔ اب تیسرا پڑوسی ایران، جسے ہم 39ممالک کی فوج میں نہ صرف شمولیت بلکہ اس کی سربراہی قبول کر کے ناراض کر رہے ہیں۔ جب ہم چاروں طرف سے دشمنوں میں گھر جائیں گے تو پھر اس کا انجام کیا ہوگا؟ کیا پاکستان پُرسکون انداز میں سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کر سکے گا اور کیا ہماری معیشت پٹری پر چڑھ سکے گی؟ آخر کب تک ہم تابوت اُٹھاتے رہیں گے۔
ہمارا المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہم اندرونی طور پر بھی افراتفری کا شکار ہیں اور قومی وملی یک جہتی کہیں نظر نہیں آتی۔ ہمارے رہنما ”کرسی“ کے حصول کی تگ ودو میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ اُنہیں ملک کی پرواہ ہے نہ مجبور ومقہور قوم کی۔ کپتان صاحب کہتے ہیں کہ وہ ادارے مضبوط کرنے کے لیے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ اُنہوں نے خیبرپختونخوا میں اداروں کو کتنا مضبوط کیا؟ البتہ خاں صاحب کے حوصلوں کی داد دینی چاہیے کہ وہ ایک مہم میں ناکامی کے بعد دوسری مہم کا بہانہ تراش لیتے ہیں۔ زرداری صاحب نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جس طرح اُنہوں نے اکثریت نہ ہونے کے باجود اپنا چیئرمین سینٹ بنا کر دکھایا تھا ویسے ہی اب اپنا وزیراعظم بھی بنا کر دکھائیں گے۔ زرداری صاحب کی شدید خواہش ہے کہ انتخابات اِسی سال ہو جائیں کیونکہ اگر انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوئے تو فروری میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سے چیئرمینی بھی چھن جائے گی۔ دوسری طرف نواز لیگ کو عمران خاں کے ہاتھ میں وزارتِ عظمیٰ کی لکیر نظر آتی ہے کہ زرداری صاحب کے ہاتھ میں۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وطنِ عزیز تو عشروں سے حالتِ جنگ میں ہے لیکن ہمارے بزعمِ خواہش رہنماؤں نے ہمیشہ اقتدار کی جنگ لڑی ہے ملک وقوم کی سلامتی کی نہیں۔ آج بھی جبکہ ہمارے چاروں طرف دشمنوں کی یلغار ہے، ہمارے رہنما ہوس اقتدار میں اندھے ہو چکے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کب تک، آخر کب تک۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.