
ٹکراوٴ کی سیاست اور ملکی استحکام
جمعرات 26 اکتوبر 2017

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
اُس شہر کا اِک شخص بھی بیدار نہ دیکھا
ہم یہ نہیں کہتے کہ آرٹیکل 62/63 لاگو نہیں ہونے چاہییں لیکن یہ ضرور کہ پہلے قوم کی تربیت تو کرلیں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ اِس معیار پر کوئی بھی پورا نہیں اترتا، سیاستدان نہ ادارے، عدلیہ نہ فوج اور نہ ہی میڈیا بلکہ میڈیا سے تو جلتی پر جتنا جی چاہے تیل ڈلوا لو۔ میڈیا پر نقالوں ،بھانڈو اور جگت بازوں کا قبضہ جو جس کی جی چاہے پگڑی اچھال دے۔ اگر پیمرا حرکت میں آئے تو عدالتیں نیوز چینلز کو ”سٹے“ دینے میں ایک لحظے کی تاخیر نہیں کرتیں۔ پیمرا ایسے کیسز پر کروڑوں روپے صرف کر رہا ہے لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔ بے بس وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ وہ تمام کیسز واپس لے رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے کم از کم وکیلوں کو دی جانے والی کروڑوں روپے فیس تو بچ جائے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ اب میڈیا کے جو جی میں آئے ،کرے۔ مبارک ہو کہ اب ہمارا نڈر اور بے باک میڈیا پہلے سے زیادہ آزاد بلکہ مادر پدر آزاد ہو گیا ہے۔ اِس شطر بے مہار آزادی میں جتنا حصہ میڈیا کا ہے ،اُتنا ہی عدلیہ کا بھی جو آزادیٴ اظہار کے نام پر ”سٹے“ دے دیتی ہے خواہ یہ اظہار گالی گلوچ ،فتنہ پردازی ،بہتان تراشی، شعارِاسلامی کا مذاق اُڑانے اور اور انتشار پھیلانے ہی کی صورت میں نہ ہو۔ موجودہ سیاسی بحران کو ہوا دینے میں بھی سب سے زیادہ حصّہ الیکٹرانک میڈیا کا ہے ،وہ خواہ نیوزچینلز کی صورت میں ہو یا سوشل میڈیا کی صورت میں۔
بات پاناما پیپرز کی شروع ہوئی اور پاکستانی ترقی کو رگیدتی چلی گئی۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ اب روتی بلکتی قوم کو کرپشن کے عفریت سے نجات مل جائے گی لیکن نتیجہ برعکس نکلا۔ اعلیٰ عدلیہ نے پاتال کی گہرائیوں تک جا کر ایک اقامہ تلاش کیا اور اُسے بنیاد بنا کر وزیرَاعظم کو گھر بھیج دیا اور یوں ثابت ہو گیا کہ مقتدر قوتیں کسی بھی آئینی حکومت کو اُس کی آئینی مدت پوری کرنے کو سخت ناپسند کرتی ہیں۔ پھر نواز لیگ نے پارلیمنٹ سے الیکشن اصلاحات 2017ء کی صورت میں پارلیمنٹ سے ایک بِل منظور کروا لیا جس کے تحت نااہل شخص بھی کسی سیاسی جماعت کا صدر بن سکتا ہے ۔اِس بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھا لیاکیونکہ میاں نوازشریف کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہو چکی تھی اور اپوزیشن کو ایسی قد آور سیاسی شخصیت کسی صورت بھی قبول نہیں تھی حالانکہ پہلے ہی آئین کی دفعہ 17 کے تحت کسی بھی شخص کو سیاسی جماعت بنانے کا حق حاصل ہے اور اِس آرٹیکل میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں ہو سکتا۔ نااہلی کی شرط آمروں کی دین تھی جسے انتخابی اصلاحات 2017ء سے نکال دیا گیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منظور علی شاہ نے اِس بِل کے خلاف دی گئی اپوزیشن کی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ” اخلاقی طور پر برا لگتا ہے کہ عدالت سے نااہل قرار دیا جانے والا شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بنے لیکن برا یا عجیب لگنے کی وجہ سے قانون کالعدم نہیں کیے جاتے“۔ درخواست گزاروں کے وکلاء نے جب چیف جسٹس کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ عدالتوں کو اخلاقی تقاضے پورے کرنے کے لیے فلٹر بھی لگانا ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو کوئی دہشت گرد بھی کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ جواباََ چیف جسٹس صاحب نے دوٹوک انداز میں کہاکہ فلٹر لگانا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں،آئین نے ووٹر کو جو حق دیا ہے ،اُس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا اصل فورم پارلیمنٹ ہے۔ عدلیہ پارلیمنٹ کے دائرہٴ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی ا،س لیے درخواست گزاروں کو پارلیمنٹ کا ہی دروازہ کھٹکٹانا چاہیے ۔چیف جسٹس صاحب نے تو پارلیمنٹ کو سپریم مان لیا لیکن اِس کا کیا کِیا جائے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے آئین ساز ہی اسے سپریم ماننے کو تیار نہیں۔اگر نااہلیت کی شرط پہلے ہی سے آئین کا حصہ ہوتی تو اپوزیشن یہ کہہ سکتی تھی کہ حکومت نے اپنی اکثریت کے زور پر اِس شرط کا خاتمہ کروا دیا لیکن یہ تو آمروں کا تحفہ تھا جس سے آئین کو پاک کیا گیا۔ بالکل اسی طرح اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کے لیے ضیاء الحق نے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کو آئین کا حصہ بنایا تاکہ اِن آرٹیکلز کو بنیاد بنا کر وہ جس کو جی چاہے کان سے پکڑ کر باہر نکال سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین میں پارلیمنٹیرین کے لیے پہلے ہی سے کڑی شرائط موجود ہیں جن کے بعد اِن آرٹیکلز کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ 1973ء کا آئین تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا متفقہ آئین ہے۔ اگر اُس وقت آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تو آج بھی اِس کی قطعاََ ضرورت نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.