
عزّت ہوتی ہے ،کروائی نہیں جا سکتی
ہفتہ 23 دسمبر 2017

پروفیسر رفعت مظہر
انتہائی محترم چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پچھلے دنوں پاکستان بار کونسل کے زیرِ اہتمام سیمینار سے خطاب کے دَوران عدلیہ کو ”بابا“ قرار دیتے ہوئے اُس کی عزت وتکریم کو ضروری قرار دیااور ساتھ یہ بھی کہا کہ اپنے ”بابوں“ کو گالیاں مت دیں۔
(جاری ہے)
نوازلیگ کے سینیٹر مشاہداللہ خاں نے کہا ”کیا اخلاقی یا قانونی طور پر بابے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی کو سِسلین مافیا ،گاڈ فادر یا ڈان کہے“۔ اکابرینِ نوازلیگ نے کہا کہ آج شاہ کو بچانے کے لیے ایک چور اور ڈاکو کی بَلی چڑھی ہے۔ عمران کو بچانے کے لیے ترین کو پھنسایا گیا۔ یہ سکرپٹ کا حصّہ ہے۔ آج وہ اے ٹی ایم بھی بند ہوئی جس سے دھرنے ہوتے تھے۔ اگر عمران خاں نااہل ہو جاتے تو ڈگڈگی بجانے والے کِس سے دھرنے کرواتے اور کِس سے اداروں کو گالیاں دلواتے۔۔۔۔۔ آئینی وقانونی ماہرین کی کثیر تعداد بھی عمران خاں کے بچ جانے کو معجزے سے کم قرار نہیں دے رہے ۔اُن کا کہنا ہے کہ ایک کیس میں بینیفیشل اونرہوناسزا ہے جبکہ دوسری جگہ کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ عدلیہ کے فیصلوں میں ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔
19 دسمبر کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے کہا کہ سِکھا شاہی نہیں ،انصاف کا سِکّہ چلے گا۔ سپریم کورٹ کے باہر انصاف کا ترازو ہونا چاہیے ،تحریکِ انصاف کا نہیں۔ پہلے عدلیہ بحالی کے لیے تحریک چلائی تھی ،اب عدل کے لیے تحریک چلائیں گے۔ دہرے معیار اور انصاف کا خون نہیں چلے گا۔ اُنہوں نے کہا ”ایک فیصلہ میرے حوالے سے آیا اور ایک عمران خاں کے حوالے سے ،دونوں فیصلے سامٍنے رکھیں تو معلوم ہوگا کہ ا دُہرا معیار ہے ۔ مجھے تو رائی پر نااہل قرار دے دیا گیا اور ایک پہاڑ کو بچا لیا گیا۔ ایک خیالی تنخواہ جو میں نے لی ہی نہیں ،وہ میرا اثاثہ بن گئی اور عمران خاں کے لاکھوں پاوٴنڈز کی ٹرانزیکشنز ، بَنی گالا کا گھر ،نیازی سروسز لمیٹڈ اور فلیٹ ،جن کے بارے میں وہ خود تسلیم کر چکا ہے کہ ہاں ! یہ میرے ہیں ، مگر کہا جا رہا ہے کہ یہ اُس کا اثاثہ نہیں۔ لہٰذا ہم اُسے نااہل قرار نہیں دے سکتے ۔کیا یہ دُہرا معیار نہیں؟۔ ہم کوئی پاگل یا بھیڑ بکریاں نہیں جو ایسے فیصلے قبول کریں“۔
میاں نوازشریف کی انتہائی جذبات میں کی گئی اِن باتوں میں بہرحال وزن موجود ہے کیونکہ وکلاء کی کثیر تعداد کا بھی اِسی خیال کی حامی ہے کہ میاں نوازشریف اور عمران خاں کے کیسز میں کیے گئے فیصلوں میں ایک واضح تضاد موجود ہے ۔اِسی لیے میاں نوازشریف نے ”عدل بحالی“ تحریک کا اعلان کیا ہے۔جواباََ عمران خاں نے کہا ”تم اُدھر سے نکلو ،ہم اِدھر سے نکلیں گے“۔ یہ سب کچھ کِس کا کیا دھرا ہے اور ہم کِس کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ؟۔ ایک طرف حکومت سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے رہی ہے اور دوسری طرف اپوزیشن، ملک وقوم گئے بھاڑ میں۔ اِس سب کچھکا جواب ایک معمولی عقل وفہم رکھنے والا شخص بھی یہی دے گا کہ یہ عدلیہ کے فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔
اسٹیبلشمنٹ تو اپنی وضاحت دے چکی ۔ 19 دسمبر کو پارلیمنٹ ہاوٴس میں سینیٹرز کو بریفنگ دیتے ہوئے سپہ سالار محترم قمر جاوید باجوہ نے سینیٹرز کے ہر سوال کا شافی جواب دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ بالا دست ادارہ ہے۔ فوج کو آئین سے ماوراء کردار کی خواہش نہیں ،وہ عوام کو جوابدہ ہے ۔ اُنہوں نے کہا ”فیض آباد دھرنے میں فوج کا ہاتھ ثابت ہو جائے تو مستعفی ہو جاوٴں گا ۔معاہدے میں فوجی افسر کے دستخط نہ ہوتے تو بہتر تھا مگر فوجی افسر دستخط نہ کرتا تو دھرنا ختم نہ ہوتا“۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران اُن کے ترجمان نہیں ۔ صدارتی نظام کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ یہ ملک کو کمزور کرتا ہے۔ محترم چیف آف آرمی سٹاف کی بریفنگ کے بعد نوازلیگ سمیت ہر کسی کو یہ یقین ہو جانا چاہیے کہ فوج اپنے آئینی کردار سے ماوراء کسی بھی کردار کی حامی نہیں ۔
آرمی چیف کی اِس وضاحت کے بعد یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ موجودہ افراتفری کی ذمہ دار ہماری انتہائی محترم عدلیہ ہے یا پھر سیاستدان جو سیاسی فیصلوں کے لیے عدلیہ کا دَر کھٹکٹاتے ہیں۔ سیاستدانوں کی اِس روش اور عدلہ کے متنازع فیصلوں کی بنا پر ملک میں اندرونی طور پر جنگ کا سا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔ البتہ دِل خوش کُن خبر یہ ہے کہ 19 دسمبر کو پیپلز پارٹی نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بِل 2017ء پر ضِد چھوڑ دی اور یہ بِل سینٹ سے منظور کروا لیا گیا جس سے بَروقت انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ پاک فوج اپنے آئینی کردار سے باہر نکلنے کو تیار نہیں اور نوازلیگ کسی بھی صورت میں اسمبلیاں توڑے گی نہیں۔مولانا طاہرالقادری کے پہلے دھرنوں کا انجام سب کے سامنے ہے۔ اِس بار بھی اُن کے دھرنے کا وہی حشر ہو گا جو پہلے ہوا ۔ عمران خاں کا قبل اَز وقت انتخابات کا نعرہ صدا بصحرا ثابت ہو رہا ہے اِس لیے قوم کو نوید ہو کہ ڈانواں ڈول جمہوریت کی گاڑی ایک دفعہ پھر پٹڑی پر چڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.