
بدترین اخلاقی گراوٹ کا شکار معاشرہ
ہفتہ 19 اپریل 2014

قاسم علی
(جاری ہے)
میرے خیال میں اس بدترین معاشرتی اخلاقی انحطاط کی وجوہات میں سب سے پہلی اور بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے کیوں کہ اسلام وہ عظیم الشان مذہب ہے جو پوری دنیا کیلئے رحمت وسلامتی کا پیغام بن کرآیاہے اور اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ بھی ایسی بدسلوکی سے منع فرماتا ہے جیسے مظاہرے آج کل دیکھنے میں آرہے ہیں کہ ایک ماں ہی اپنے بچوں کی دشمن اورقاتل بن جاتی ہے اگر یہی ماں اسلام کے اس زریں سبق اور اصول لا تقنطو من رحمة اللہ( اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں)سے واقف ہوتی تو کبھی بھی کسی بھی قسم کے حالات سے تنگ آکر وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کا گلا نہ گھونٹتی ۔اسی طرح اگر ملتان کے نور عالم اور ایبٹ آباد کے ندیم کا یہ ایمان ہوتا کہ دولت اور اولاد سمیت ہر نعمت صرف اور اللہ کے در سے ملتی ہے اس کے آگے جھکنے سے ہی ملتی ہے نہ کہ کسی کی گود اجاڑنے سے یا کسی جعلی عامل کے کہنے پر پچاس فٹ گہرا گڑھا کھودنے سے تو وہ یقیناََ ایسے قبیح افعال سے باز رہتے ۔اس کے بعد دوسرے نمبر پر اس جیسے واقعات کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے جو اپنے عوام کو صحت،خوراک اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنے ذمہ دار ہوتی ہے اور اسی لئے ہی ریاست کو عوام کی ماں بھی کہا جاتا ہے جو اپنے سب بچوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے اس کی گود سب بچوں کو ایک جیسا پیار اور اس کی آنکھیں ہر بچے کیلئے ایک ہی جیسی بیتابی رکھتی ہیں مگر ہماری ''ماں ''کا یہ عالم ہے کہ یہ نہ تو اپنے تمام بچوں کو انصاف فراہم کرتی ہے اور نہ ہی ایک جیسی تعلیم و تربیت اور مناسب ماحول اور یہیں سے ہی ایک ایسی معاشرتی تفریق کی بنیاد پڑتی ہے جو امیر و غریب کے درمیان فاصلوں کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے اور ہمارا نظام بھی امیر کو ہی سپورٹ کرتا ہے اورپاکستان میں یہ فقرہ مشہورعام ہے کہ ''قانون صرف غریبوں کیلئے ہوتا ہے نہ کہ امیروں اورطاقتوروں کیلئے''۔عوام کی اس اجتماعی سوچ کے پیچھے ہماری حکومتوں کی وہ بے عملی اور وعدہ خلافی ہے جو اس نے عوام سے ملک میں اسلامی قوانین کے عملی نفاذ کاوعدہ پورانہ کرکے کی ہے کہنے کو تو ملک میں سپریم لا ء کی حیثیت اسلام کو ہی حاصل ہے مگر عملی طور پر معاملہ اس کے برعکس ہے اور باوجود اس کے کہ آئین میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اسلام ملک کا سپریم لا ہو گامگر ملک میں سات سو سے زائد قوانین ایسے نافذ ہیں جو اسلامی تعلیمات کے بالک منافی ہیں ۔ہمارے آئین میں تو یہ بھی درج ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اور خود بھی اسلامی تعلیمات دینے اور عربی سمجھنے و پڑھانے کے ذمہ دار ہیں مگر ایسا نہ کرکے حکومت خود ایسے جاہلانہ واقعات کو دعوت دے رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ایسے لرزہ خیز واقعات کی ذمہ داری خودعوام پر بھی عائد ہوتی ہے جو ہر بار ایسے نمائندوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں جو اپنی تنخواہوں و مراعات اور اپنی تاحیات سیکیورٹی جیسے بل تو بڑے خشوع و خضوع کیساتھ اور راتوں رات اسمبلیوں سے پاس کروا لیتے ہیں مگر جعلی عاملوں اور مردہ خوروں سے عوام کو بچانے کیلئے اور ان کو سخت ترین سزائیں دلوانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کرتے ان کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کرواتے بھکر کے مردہ خوروں کی محض ایک سال بعد ہی رہائی ان نام نہاد عوامی نمائندوں کی مجرمانہ غفلت کی ایک بدترین مثال ہے کہ تین سال قبل یہ واقعہ سامنے آیا تو پورا پاکستان دہل کے رہ گیا کہ مرنے کے بعد بھی کسی کو چین نصیب نہیں اور ہر طرف سے یہ مطالبات سامنے آئے کہ ان درندوں کو عبرتناک سزا دی جائے مگر سزا کیسی اس بارے کوئی قانون تھا نہ اور نہ ہی اب تک بن پایاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان درندوں نے ایک سال بعد ہی رہائی کے بعد واپس آکر پھر مردہ خوری شروع کردی ۔ سب سے آخری بات یہ کہ اگر پاکستان کے تمام مالدار لوگ اپنے نصاب کے مطابق پوری زکواة حق داروں تک پہنچانی شروع کردیں تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی غریب نہ رہے اور یہ کون نہیں جانتا کہ غربت و مفلسی سے اللہ کے رسول ﷺ نے بھی پناہ مانگی تھی کیوں کہ یہ انسان کو کفر تک لے جاتی ہے ۔ایک اور جگہ آپ نے فرمایا کہ ''ہر امت کا کوئی نہ کوئی فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے''لہٰذا اگر ہر شخص اپنا قبلہ دولت کو بنانے کی بجائے انسانیت کی خدمت کوبنا لے اور اپنے عزیز و اقارب اور پڑوسیوں کی ضرورتوں کو بھی اپنی بساط کے ممطابق پورا کرتا رہے تو بھی ایسے دلخراش واقعات سے کافی حدتک بچا جاسکتا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
قاسم علی کے کالمز
-
فیک بک
بدھ 10 مئی 2017
-
سوشل میڈیا کا بے ہنگم استعمال اور ہمارے معاشرتی رویے
پیر 13 مارچ 2017
-
رجب طیب ،امت مسلمہ اور امریکہ
جمعرات 24 نومبر 2016
-
امریکی جارحیت کا پردہ چاک کرتی جان چلکٹ رپورٹ
ہفتہ 9 جولائی 2016
-
اور اب قوم کے معمار بھی سڑکوں پر
جمعہ 3 جون 2016
-
نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے؟
جمعرات 31 مارچ 2016
-
ہوکائیدو سے دیپالپور تک
جمعرات 28 جنوری 2016
-
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
بدھ 28 اکتوبر 2015
قاسم علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.