"صغریٰ میموریل ٹرسٹ"

پیر 7 دسمبر 2020

Rabia Sultan

رابعہ سلطان

کہتے ہیں دنیا اچھے لوگوں کی وجہ سے قائم ہے ۔ مجھے یقین ہوا جب میں نے بے لوث خدمت خلق کرتے اور محبتیں بانٹتے دیکھا ۔ آج میری تحریر کا مقصد اپنے معاشرے کے جذبات سے لبریز اس پہلو کی نمائندگی کرنا ہے۔ لاکھ اختلافات صحیح مگر آج بھی ہم میں سے بہت لوگ دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ مقدار میں زیادہ تو نہیں مگر معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے قدرے کافی ہیں۔

 
اسی سلسلے کی ایک کڑی ملتی ہے لاہور کے رہائشی ڈاکٹر فرحان کے ساتھ ، جو نوجوان نسل میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اتنی کم عمری میں جذبہ ہمدردی قابل دید ہے۔ انہوں نے اپنی مرحومہ ماں سدرہ موریل کے نام پہ ایک کلینک کھول رکھا ہے جس پر وہ ضرورت مندوں کو مفت میں طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

وسائل کی قلت ، اخراجات کا بوج ، مہنگائی کا سامنا مگر پھر بھی ان کے حوصلے پست نہیں۔

وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور اپنی ماں کی دعاؤں سے مضبوط ارادے کے ساتھ آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامیوں ناصر رہے اور اس نیک کام میں ان کی مدد فرمائے۔ بے شک انسان نے اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے اس وقت کی تیاری بہت ضروری ہے۔ آج کے اس دور میں ہماری ہزار مجبوریاں ہمارے رستے کا کانٹا بنی بیٹھی ہیں۔ کسی کی مدد کرتے ہوئے بھی فائدے نقصان کو بروئے کار لانا ہمارا معمول ہے ۔

لیکن وہی کچھ ایسے بھی نوجوان ہیں جن کو اللہ نے اس نیک کام کے لیے اپنے دربار میں پسند فرمایا ہے۔
 میں ان سے ملی تو انہوں نے اپنی کہانی مجھے کچھ یوں سنائی۔۔۔۔۔ کہ
میں اب زندگی کے اس حصے میں ہوں جہاں انسان زندگی کے جھمیلوں سے تنگ آچکا ہوتا ہے ،وہ زندگی کی روشنیاں دیکھ چکا ہوتا ہے ، وقت کے تھپیڑوں سے واقف ہوجاتا ہے ۔زندگی کی ا لجھنوں سے تھک ہار کر اب وہ صرف ایک ہی گود کی طرف رخ کرتا ہے جو اس کی ماں کی ہوتی ہے ۔

کیوں کہ اس کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ بچپن سے آج تک اگر کوئی مخلص ہے ۔ تو وہ اس کے ماں ،باپ ہیں ۔ صرف وہی ایک درخت ہے جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر اس کو سکون نصیب ہوسکتا ہے۔ مگر یہ سب میں صرف سوچ سکتا ہوں کیوں کہ میں اس لحاظ سے ایک بدنصیب انسان ہوں ۔ میری بخت سیاہی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کے میرا گھر اس محبت کے سائے سے محروم ہے۔ میں زندگی کی دھوپ میں جل بھی جاؤں تو میرے پاس ممتا کا سایہ نہیں جو مجھے اس دنیا میں جینے کے لیے حوصلہ گار ثابت ہو۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ زندگی تو وہ ہوتی ہے ۔ جب گھر میں ایک ماں انتظار کر رہی ہو ،جب ایک باپ امیدیں لگائے بیٹھا ہوا ۔ کیوں کہ اس وقت انسان کے اوپر ایک پیار کرنے والا ہاتھ اور ایک حوصلہ دینے والا ساتھ ہوتا ہے ، جو کہ گرنے نہیں دیتا اور اگر گر جائیں تو اٹھنے میں بھی یہی مدد دیتا ہے ۔ جب انسان کے پاس ماں ،باپ ہوں تو وہ خود کو ایک مضبوط ، طاقت ور انسان محسوس کرتا ہے۔

لیکن اگر انسان کے پاس یہ دونوں ہستیاں نہ ہوں تو وہ اس بیگانی دنیا میں خود کو اکیلا اور تنہا محسوس کرتا ہے۔ اور زندگی اس کو بہت کٹھن لگتی ہے ۔
میں اکثر جب یادوں کا سمندر لیے بیٹھتا ہوں ، تو سوچتا ہوں کہ وقت کتنی تیزی سے جارہا ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات تھی کہ ماں کا سایہ سر پہ تھا۔ امی جان!! کی گود میں سر رکھ کے لیٹا رہتا اور وہ پیار سے سر پر ہاتھ پھیرتی رہتیں اور دن بھر کے سارے سوالات پوچھتی ۔

اس گود میں جو سکون میسر تھا وہ آج تک دوبارا نصیب نہیں ہوا۔ ان کو سب باتیں بتا کر ایسے لگتا تھا کہ جیسے سارے مسائل حل ہوگئے ہوں۔ سب ٹینشنز ختم ہوگئی ہوں ۔ ان کو سب بتا کر واقع دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا تھا۔ جب میں پہلی بار ہوسٹل گیا تو مجھے آج بھی یاد ہے کہ امی کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ اور وہ رو رو کے کہہ رہی تھیں ۔ کھانے کا خیال رکھنا ،وقت پر کھانا۔

اور وہ ہی صرف دنیا میں واحد ہستی تھیں ۔جو کال پر حال کے بعد سب سے پہلے یہ ہی پوچھتی تھیں کہ کھانا کھایا ؟ وقت پر کھاتے ہو؟ وہاں کھانا اچھا ملتا ہے یا نہیں؟ اور جب گھر سے نکلنے لگتا تو بوسہ دے کر دعاؤں میں رخصت کرتی تھیں ۔ اور جب میں جاتا تو ایک حوصلہ ایک بھروسہ میرے چہرے پر ہوتا تھا کیوں کہ مجھے یقین تھا کہ میری ماں میرے لیے ہمیشہ دعا گو ہے ۔

۔۔ آج بھی وہ دن یاد آتے ہیں جب گھر میں سب مل بیٹھ کے گپ شپ کرتےتھے ۔ ابو، امی کی ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہوتی تھی ۔ ہر طرف ایک ہلچل اور شور برپا ہوتا تھا۔ اس وقت تو ان لمحوں کی قدر نہ تھی ۔ اب سوچتے ہیں تو یوں لگتا ہے ۔ کہ وہی تو زندگی تھی ۔ جب ہر طرف گھر میں ہنسی،قہقے گونجتے تھے ۔ خوشیاں گھر کا پانی بھرتی تھیں ۔ وہ لمحات قابلِ فراموش نہیں۔

ہر طرف خوشی تھی ۔ زندگی سکون میں تھی ۔ میں جب گھر میں بتاتا تھا کہ میں اپنی منزل کا ایک مرحلہ پورا کر چکا ہوں، تو سب کے چہروں پر ایک خوشی کی لہر سی آجاتی ، والد صاحب خوشی سے گلے لگاتے اور ان کے چہرے کی رونق یہ بتاتی تھی کہ جیسے ان کو ان کی محنت کا انعام مل گیا ہو ۔ امی شکر الحمد اللہ کہتی اور گلے لگا کر بہت سی دعائیں دیتی ۔ ماں ، باپ کی اس خوشی کو دیکھ کر اور ہمت آتی ،اور دل میں خواہش پیدا ہوتی کہ اب تو منزل تک پہنچ کر ہی دم لینا ہے ۔

۔ مگر وقت نے ساتھ نہ دیا ، قسمت بھی دغا کر گئی ۔ اور بہت جلد ہم ان کی محبت سے محروم ہو گئے۔
اب تو لگتا ہے کہ صدیاں ہوگئی ۔ زندگی بے رونق سی ہے ۔ اب ہنستے ہیں تو بھی خوشی نہیں ہوتی ۔ اب کوئی ڈانٹنے والا ہی نہیں ہے۔ کوئی غلطی پر غصہ کرنے والا ، کوئی رونے پر آنسو صاف کرنے والا ، کوئی بھی نہیں ہے ۔ یہ دنیا صرف ماں ، باپ کے دم سے ہیں اگر اس میں ماں ،باپ کا سایہ نہیں تو یہ کچھ بھی نہیں ۔

ساری روشنیاں صرف ان کی ذات سے وابستہ ہیں۔ اگر وہ لوگ دنیا سے رخصت ہوجائیں۔ تو یہ روشنیاں ایک دم پھیکی ہوجاتی ہیں ۔ سب بے رونق اور بے سود لگتا ہے۔ اب تو بس ہر وقت یہی دعا رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنتُ لفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ وہ وہاں بھی خوش ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ ماں ،باپ کا سایہ سب پر سلامت رکھے۔۔ (آمین)
ان کی ان سب باتوں کے بعد میں نے سوچا کے ماں ،باپ اولاد کو ہر طرح سے سیراب کرتے ہیں ۔

اولاد ہی کبھی کبھار دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر غفلت کا شکار ہوجاتی ہے۔
مگر یہ غفلت بھی صرف کچھ دنوں کے لیے ہی ہوتی ہے ۔ ایک دن آتا ہے کہ غفلت کے اندھیرے مٹتے ہیں ۔ انسان بیدار ہوتا ہے۔ پھر ماں باپ کی محبت کا احساس ہوتا ہے ۔ اگر یہ احساسِ شرمندگی ان کی حیات میں ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے اگر ان کی وفات کے بعد ہو جائے تو عمر بھر کے پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے دربار میں دعا ہے کہ ہر اولاد کو ماں ،باپ کا فرمانبردار بنائے ۔ ان کے لیے باعث فخر بنانے ۔ بے شک یہ زندگی انہی کے دم سے ہے ۔ ان کے بغیر زندگی کا تصور ایک بھیانک اندھیری رات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمیں ڈاکٹر فرحان اور اس طرح کے دیگر لوگوں سے سیکھنا چاہیے وہ آج بھی اپنے ماں باپ کے لیے خیر کا کام کر رہے ہیں۔ تاکہ اگلی دنیا میں بھی ان کے لیے اللہ تعالٰی آسانیاں فرمائے۔ ڈاکٹر فرحان تو اپنی امی جان اور اپنے لیے ایک بہت اچھا کام کر رہے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی حوصلہ افزائی کریں اور مالی طریقے سے جہاں تک ممکن ہو ان کی مدد کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :