
"واقف نہ تھی ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے"
جمعہ 16 اکتوبر 2020

رابعہ سلطان
ﺍﺳﺘﺎﺩ ِﻣﺤﺘﺮﻡ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ
ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺳﺒﻖ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ
ﻣﯿﮟ کچھ ﻧﮧﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﺐ کچھ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ
ﺍﻥ ﭘﮍﮪ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﮨﻞ ، ﻗﺎﺑﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ
ﺩﻧﯿﺎئے ﻋﻠﻢ ﻭ ﺩﺍﻧﺶ ﮐﺎ ﺭﺳﺘﮧ مجھے ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ
(جاری ہے)
لیکن پھر۔۔۔۔۔۔ عمر کا ایک حصہ آتا ہے۔ جوانی کے سالوں میں سے وہ سال آتا ہے۔ جب ہم اپنی انتہائی کمزور حالت میں ہوتے ہیں ، جب ہم خود کو بالغ سمجھ کر دنیا سے آگے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں ۔اس وقت کچھ ایسے لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور ہماریے غیر یقینی صورتحال کے لمحوں میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ یہ لوگ کوئی بھی ہوسکتے ہے - دوست ، والدین ، بہن ، بھائی اور ایک استاد۔
یہاں بات اگر ایک استاد کی کریں تو استاد صرف ایک معلم نہیں ہوتا وہ تمام کردار ادا کرتا ہے۔ ایک دوست کا ،ایک مشیر کا، ایک معلم کا ، ایک رہنماء کا اور ایک سرپرست کا ، ہمارا سب سے اچھا دوست ایک استاد ہی ہوسکتاہے۔
استاد ہمارے لئے سب کچھ ہیں۔ ہمارے لیے مثال ہیں زندگی کی ، وہ ہمیں زندگی کی سڑکوں پر چلنا سیکھاتے ہیں۔
آج ایک سطر سامنے سے گزری اور اس نے میری توجہ اس طرف راغب کی کہ "اچھے استاد کا اثر کبھی بھی مٹ نہیں سکتا"۔
یہ الفاظ مجھے اپنی یونیورسٹی میں لے گئے۔ جہاں میرے ایک استاد *پروفیسر ڈاکٹر حافظ حسنین* تھے ۔ جو کہ میرےاساتذہ کی فہرست میں بےنظیر ہیں ۔
ایسا نہیں ہے کہ پہلے کبھی کوئی اچھا ٹیجر نہیں ملا۔ قسمت سے کوئی گلہ نہیں ہر بار زندگی نے ایسے استاد دیے جنہوں نے ڈگری کے نمبروں میں اضافہ کروایا، بورڈ کے امتحانوں میں اول فہرست تک لانے کی ہر ممکنہ کوشش کی، جس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ۔ انہیں کی بدولت یہاں تک کا سفر مکمل کیا، ان کی محنتوں اور کاوشوں سے کوئی گلہ نہیں ، ان کے بہت احسانات ہیں۔ انہوں نے کتاب سے پڑھنا اور صفحے پر لکھنا سیکھایا ۔ انہوں نے اپنے قدم پر کھڑے ہوکر چلنا سیکھایا، بےشک میرے تمام اساتذہ کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مگر یہاں مخصوص یونیورسٹی کی بات اس لیے کی کہ اس مکتب نے مجھے اڑھنا سیکھایا ۔ یہاں میرے استاد *پروفیسر ڈاکٹر حافظ حسنین* ۔ جو کہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کا انداز انتہائی دلچسپ اور مختلف ہے۔ وہ کبھی پڑھاتے نہیں تھے بلکہ وہ اس چیز کے مطلق اپنے طلباء کا نظریہ جانتے تھے اور پھر اسی گفتگو میں وہ سارے نظریات کا خلاصہ پیش کرتے اور ہر پہلو روشن ہوتا چلا جاتا۔ ان کا یہ انداز انتہائی منفرد تھا ۔ پیچیدہ تصورات کو آسان الفاظ میں سمجھانا ان کا معمول تھا۔ اور ان کا یہ طریقہ کبھی کبھی حیرت میں ڈال دیتا ۔ انہوں نے کبھی کہاں نہیں کہ آج ہم یہ پڑھیں گے ! کبھی انہوں نے کہاں نہیں کہ آپ کو یہ یاد کرنا ہے۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی موجودگی میں تعلیم کبھی بوجہ نہیں لگی۔ ان کے مضمون کے لیے کبھی راتیں نہیں کاٹنی پڑی ۔ کبھی صفحے نہیں کالے کیے۔ انہوں نے پڑھایا نہیں صرف سیکھایا تھا۔ انہوں نے صرف ہمارے مشاہدات کی درستگی کی۔
بہر حال صرف اس تدریسی انداز کی وجہ سے وہ میرے پسندیدہ اساتذہ میں قد آور نہیں ہوتے کیوں کہ میں نے اپنی طالب علمی کی زندگی میں بہت سے حیرت انگیز اساتذہ سے ملاقات کی جن کی تدریس کا انداز قابل ذکر ہے۔ میرے خیال کے مطابق تعلیمی سلسلہ میں ، سب سے زیادہ طاقتور طالب علم اور اساتذہ کے مابین ایک رشتہ ہوتا ہے۔ اور اس تعلق کی وجہ سے تعلیمی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اور طلبہ بااختیار بنتے ہیں ۔ جو چیز میرے پسندیدہ استاد کی فہرست میں ان کو شامل کرتی ہے وہ ہے ان کا انداز ۔۔۔۔۔ اندازے گفتگو ، اندازے بیاں بانی ، ان کے نظریات ، ان کا مثبت رویہ ، ان کی منفرد سوچ گویا میرے مطابق وہ اس دنیا کے کم ترین لوگوں میں شامل ہوتے ہیں ۔ جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کے سایہ شاگردی میں اندھیرے کا کوئی تصور ہی نہیں ،مایوسیاں گمنام ہیں ، زوال کا سوال ہی نہیں اٹھتا ، تکلیف کا کوئی وجود نہیں ، درد کی کوئی تصویر نہیں ، عروج کسی مشکل کا نام نہیں ، منزل کبھی دور نہیں ملتی ۔ ان کے لیے پرجوش رہنا ،خوش رہنا اور ہمیشہ پر امید رہنا زندگی کا اولین مقصد ہے۔ ایک بات جو انتہائی دلچسپ ہے وہ یہ کہ ان کے سامنے جدوجہد کی تعریف اپنی حیثیت کھو بیٹھتی ہے ۔ اپنی مرضی سے انتخاب کی ہوئی منزل تک پہنچنے والی محنت جدوجہد تو نہ ہوئی۔ آخر جس کام کو کر ہی اپنی خوشی کے لیے رہے ہیں تو اس کام میں تھکنا کیسا ، اور اس محنت کو کوئی کٹھن کام سمجھنا بھی بےوقوفی ہے۔ اس محنت کو نہ ہی اس قابل سمجھتے ہیں جس کو لوگوں کو بیان کیا جائے۔ اور تعریفیں سمیٹی جائے۔ ان کے مطابق ہر کام اپنی خوشی کے لیے کریں بغیر کسی غرض کے ، بغیر کسی لالچ کے ،مقصد صرف اور صرف اپنی خوشی ہو۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی بھی نہیں تھکے ہمیشہ اپنے طالب علموں کو خوش مزاج موڈ میں ملتے ۔ آپ وہ استاد ہیں جو ہمیشہ اپنے طلباء کے ذہن کو مثبت انداز میں پروان چڑھاتے ہیں۔ اساتذہ جو لوگوں کو زندگی کی سب سے اہم تعلیمات دیتے ہوئے طلبا کو ترقی کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
والدین کے بعد اساتذہ ہی تربیت کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ وہ روحانی ہستی ہیں۔ جو دھات کو کندن، پتھر کو ہیرا، بنجر زمین کوزرخیز اور صحرا کوگلستاں بناتے ہیں۔
اگرچہ میرے نزدیک ان کی تعریف کرنے کے لئے الفاظ کافی نہیں ہیں۔ مگر میں ان کے لیے دل سے ہمیشہ دعا گو ہوں۔ جب میں دعا کے لئے خلوص دل سے ہاتھ اٹھاتی ہوں تو میں ان کو ہمیشہ یاد کرتی ہوں اور میں اللہ تعالی کی بہت شکر گزار ہوں اور خود کو شکرگزار محسوس کرتی ہوں کہ آپ کو اپنی زندگی میں استاد کی حیثیت سے پایا ۔
اللہ رب العزت ان کا شفیق سایہ ہم سب پر رکھیں اور ان کو صحت و تندرستی عطا کریں۔ آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رابعہ سلطان کے کالمز
-
ریاستی سطح پر خاندانی نظام تباہ کرنے کی کوششیں
منگل 6 جولائی 2021
-
تصوّف سے آشنائی
ہفتہ 23 جنوری 2021
-
"صغریٰ میموریل ٹرسٹ"
پیر 7 دسمبر 2020
-
"فوڈ سیکیورٹی ایک عالمی مسئلہ "
ہفتہ 31 اکتوبر 2020
-
"اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے"
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
"واقف نہ تھی ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے"
جمعہ 16 اکتوبر 2020
-
"ینگ مائکرو بیالوجسٹ ایسوسی ایشن (YMA)"
بدھ 30 ستمبر 2020
-
"پاکستان میں سائنس کی صورت حال"
جمعرات 24 ستمبر 2020
رابعہ سلطان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.