ریاستی سطح پر خاندانی نظام تباہ کرنے کی کوششیں

منگل 6 جولائی 2021

Rabia Sultan

رابعہ سلطان

حکومت وقت کی طرف سے گھریلو تشدد پر پیش کیے جانے والا بل اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم لوگ ماڈرن ہوچکے ہیں جو نہایت خوش آئند بات ہے کیوںکہ شاید ترقی یافتہ ہونے کے لیے مغربی ممالک جیسی سوچ رکھنا لازم ہے؟؟؟ ہم بھی اب خود کو ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد کروا کر اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں۔۔۔ ہم بھی اب شخصی آزادی کے علمبردار کی فہرست میں خود کو شامل پاتے ہیں۔

۔۔نام کی ریاست مدینہ میں ہم نے مشرقی اور اسلامی تہذیب کو پس پشت ڈالتے ہوئے مغربی نظام کو نافذ کرنے کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔۔۔
جس کی مثال حالیہ دنوں میں پیش کیا جانے والا بل جو کہ نہ صرف پاکستانی کلچر کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ مذہبی تعلیم کی روح سے بھی انتہائی غیر مناسب ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔۔ بل کے اہم نکات میں شامل ہے کہ اگر بیٹا یا بیٹی آپ کی روک ٹوک اور سختی کو ہراسانی (Harassment) کے طور پر لیتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس کے ذاتی معلومات میں دخل اندازی کی جارہی ہے، جس سے ان کی پرائیویسی، اور آزادی میں خلل پڑ رہا ہے۔

۔۔۔
ان کو آپ کی پرانی ذہنیت اور تنگ نظر سوچ سے خطرہ ہے اور اگر آپ نے ان پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا اور ایسے جملے استعمال کیے کہ " میں تمہاری پٹائی کروں گا " اور "اگر تم نے یہ دوبارہ کیا تو تمہیں مار پڑ سکتی ہے" تو اس صورت میں ان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آپ کے خلاف عدالت جائیں اور ان حالات میں آپ سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔۔۔ کیوںکہ ایسے الفاظ کا استعمال کرنا دوسرے انسان کی توہین میں شامل ہے اور اگر آپ نے اپنے خاندان کے کسی فرد کی تضحیک کردی تو آپ کو تین سال جیل اور ایک لاکھ جرمانہ ہوسکتا ہے ۔

۔۔اس کے علاوہ آپ کے ہاتھ میں ڈیجیٹل کڑا پہنایا جاسکتا ہے جس کی مدد سے آپ کی تمام نقل و حرکت پر نگرانی کی جائے گی۔۔۔بل کی رو سے عدالت باپ کااپنے ہی تعمیر کردہ گھر میں داخلہ ممنوع کر سکتی ہے ۔۔ ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے سنگین نتائج کا آپ کو سامنا کرنا پڑے گا ۔۔۔۔
صرف یہی نہیں اس بل کے اور بھی بہت سے نامناسب شقیں ہیں۔ جو کہ خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیں گے ۔

۔۔ اس قانون میں میاں بیوی کے مابین قائم کردہ رشتے کو بھی لبرل بنانے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔ جس میں اگر کوئی خاوند اپنی اہلیہ سے دوسری شادی کی خواہش ظاہر کرے تو اس اظہارِ خیال کو ذہنی تشدد تصور کیا جائے گا اور خاتون خانہ کے پاس اختیار ہے کہ عدالت سے رجوع کر کہ اپنے شوہر کو سزا کا مستحق بنا دے ۔۔۔ ڈومیسٹک وائلنس بل کی ایک شق کے مطابق خاوند بیوی کو طلاق کی دھمکی دے تو جیل جائے گا اور اگر طلاق دے تو کوئی سزا نہیں ۔

۔۔ ایک اور شق کے مطابق باپ بچوں کی پرائیوسی میں دخل نہیں دے سکتا جبکہ بچوں کی شکایت پر والد کو جیل بھیجا جائے گا۔۔۔
اس بل کو ابتدائی مراحل سے گزار کر سینٹ میں پیش کیا گیا جہاں سے کچھ ترامیم کیے جانے کے بعد دوبار قومی اسمبلی میں بھیج دیا گیا اور پارلیمانی روایت کے خلاف گھریلو تشدد اور حفاظت کا بل عجلت میں منظور کروایا گیا ۔ یہ بل ڈاکٹر شیریں مزاری نے پیش کیا جو کہ موجودہ حکومت کی وزیر ہیں۔

۔۔۔اس بل کو حکومت اور اپوزیشن کی حمایت حاصل ہے۔۔۔ سینٹ میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ف کے سینیٹرز نےاس بل کی مخالفت کی لیکن ان کے اعتراضات پر توجہ دیے بغیر یہ بل پاس کروا دیا گیا ۔ اس بل نے ہمارے مذہبی اور معاشرتی کلچر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔۔۔اس طرح کے قوانین سے ہمیں خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔
ہمارے حکمران جو کہ مدینہ جیسی ریاست بنانے نکلے تھے ۔

۔۔۔ ایسی ریاست جس میں اسلام کو اور اسلامی قوانین کو فروغ دینا ان کا مقصد ہونا چاہیے تھالیکن اس کے برعکس ایسے قانون بنانا جو مغربی کلچر کی عکاسی کرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لوگ آج بھی مغربی کلچر کے غلام ہیں۔۔۔ ورنہ کون سے اسلام میں ایسے نامناسب اصول بتائے گئے ہیں؟؟؟ اسلام میں تو اولاد کی تربیت کے لیے گھر میں کوڑا لٹکانے کا حکم دیا گیا ہے۔

۔۔۔ سختی سے، نرمی سے، محبت سے اولاد کو سمجھانے اور سیکھانے کا کہا گیا ہے۔۔۔ ۔ ماں ،باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اولاد کو غلط کاموں پر روکے ناکہ ان کو ان کی ’مرضی‘ اور ’من مانیُ‘ کرنے کے لیے معاشرے میں بے لگام چھوڑ دیں۔۔۔۔ کیا ہم ریاستی سطح پر ایسے قانون لاگو کروا کر ہم اپنی نوجوان نسل کو باغی نہیں بنا رہے ؟؟؟۔۔۔۔ جس میں بیٹے کو حق حاصل ہو کہ وہ باپ کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دے ، بیٹی کو حق حاصل ہو کہ وہ ماں کو شٹ اَپ کال دے سکے۔

۔۔۔
اسلامی تعلیمات کی مطابق اولاد پر ماں ،باپ کے بہت زیادہ حقوق ہیں ۔۔۔۔ جس میں ماں باپ کی عزت کرنا ، ان کے جائز احکامات کی تکمیل کرنا اولاد پر فرض ہے اور اس پر ثواب،گناہ رکھا گیا ہے تاکہ معاشرے میں ایک توازن برقرار رکھا جائے۔۔۔۔ ایسے قانون جس سے اولاد اور والدین کے درمیان نفرتیں، بدگمانیاں ،فتںے اور فساد جنم لے ہمیں ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔

۔۔ بصورت دیگر نقصان صرف اور صرف ہمارا ہے ۔ ۔۔
خاندانی نظام کو لے کر گزشتہ حکومت میں بھی ایسا ہی ایک نامناسب بل پاس کروایا گیا تھا ۔۔۔ جس پر ایک کیس سامنے آیا کہ معمولی گھریلو ناچاکی پر خاتون نے مقدمہ درج کروایا اور شوہر کو قید کروائی۔۔۔۔ قید ختم ہونے کے فوراً بعد ہی شوہر نے باہر آتے سب سے پہلے بیوی کو طلاق دے دی ۔۔۔ اب ایک ایسا معاشرہ جس میں طلاق شدہ خواتین سے دوسرا نکاح کرنا کسی جرم سے کم نہیں اور دوسری شادی کرنا کسی کٹھن مرحلے کو پار کرنے سے کم نہیں۔

۔۔ تو کیا اب ایسے معاشرے میں طلاق کی شرح کو مزید بڑھانا اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں ہے ؟؟؟
اسلام میں چار شادیوں کی اجازت اس لیے دی گئی کہ اس سے بے حیائی کا معاشرے میں خاتمہ ہوتا ہے۔ ۔۔ مگر افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے قانون بنانے والے لوگ کس قدر مغربی تہذیب کے آئینہ دار ہیں ، کہ ایک غیر متوازن نظام کی بنیاد رکھ رہیں ہیں۔

۔۔
لیکن! ۔۔۔ اس حقیقت سے ہم نظریں نہیں چرا سکتے کہ ایسے قوانین سے گھر نہیں بسائے جاتے ۔ ایسے قانون ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کر دیں گے۔۔۔۔ خاندانی نظام کی ناکامی درحقیقت معاشرے کی ناکامی ہے اور ناکام معاشرے کبھی ترقی نہیں کر پاتے ۔۔۔۔ ایسے قوانین سے معاشرے میں انتشار پھیلنے کے خدشات ہیں۔۔۔۔ قومی اسمبلی کے ممبران کو چاہیے کہ وہ اس قانون کے خطرناک شقوں پر غور کریں اور ان میں خاطرخواہ اور مثبت تبدیلی لائے۔

ایسے قوانین بنائے جائیں جو اسلامی تعلیمات کی عکاسی کرتے ہوں ۔۔ ۔
پاکستان میں جمہوریت سے مراد مادر پدر آزاد جمہوریت نہیں بلکہ پاکستان کا آئین بذات خود خلاف شریعت قانون سازی کو مسترد کرتا ہے،اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پارلیمانی روایت کے خلاف گھریلو تشدد اور حفاظت کا بل عجلت میں منظور کروایا گیا ہے جس کے ہمارے معاشرے میں بہت ہی منفی اثرات دیکھنےکو ملیں گے،ہم سمجھتے ہیں کہ گھریلو تشدد بل کے نام پر مشرقی اقدار کو تباہ کیا جارہا ہے،مادر پدر آزادمعاشرے کے قیام کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے،خوشنماء نام کی آڑ میں غیر ملکی این جی اوز کا ایجنڈا قوم پرمسلط کیاجا رہا ہے۔

۔۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار یا جھجھک نہیں کہ معاشرے کے سنجیدہ حلقوں کو احساس تک نہیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟؟ چند طاقتور این جی اوز کس طرح ملکی آئین میں اپنا ایجنڈا شامل کر رہی ہیں ؟؟؟ والدین کو مجرم بناکر پیش کرنا ایک غیر ملکی ایجنڈا ہی محسوس ہو رہا ہے کیونکہ ایک اسلامی معاشرے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے،گریلو تشدد کو روکنے کے نام پر خاندانی نظام تباہ ہونے سےبچانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنی استطاعت کے مطابق آواز بھی بلند کرنا ہو گی ۔

۔۔۔
جسٹس شاہ دین ہمایوں نے شائد اسی موقع کے لئے یہ شعر کہا اور کیا خوب کہا تھا کہ !
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :