اساتذہ کا مقام کسی کو یاد نہیں

منگل 1 دسمبر 2020

Roha Salam

روحہ سلام

آج کل کی نوجوان نسل اساتذہ کرام کا احترام کرنا بھولی ہی نہیں بلکہ تمام فرائض میں سے خاص کر اساتذہ کا احترام جیسا خوبصورت فرض مٹا چکی ہے کہہ سکتے ہیں فراموش کر دیا ہے ان کی زندگی میں ٹیچرز  کی کوئی حیثیت نہیں. معاشرے میں بلند مقام رکھنے والی ان عظیم ہستیوں کا مقام، رتبہ اور بلند درجہ جاننے سے قاصر ہیں. جو طلباء بچپن میں استاد کی عزت و احترام کرنا نہیں سیکھتے وہ بڑے ہو کر کیا سیکھیں گے؟ اور آج کل کے بچوں کا اساتذہ کرام کو کچھ نہ سمجھنے کی بڑی وجہ ان کی تربیت ہے جس کے بارے میں والدین نے کبھی سوچا نہیں اور نہ ہی ان کے اخلاق اور سیرت کو نکھارنے کی کوشش کی ہے.

اساتذہ کا احترام ہی کامیابی کی سیڑھی ہے.

(جاری ہے)

اور یہ سیڑھی صرف وہی چڑھتے ہیں جو والدین اور اساتذہ کو ایک برابر سمجھتے ہیں. جو قومیں اور طلباء اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتیں کبھی ترقی نہیں کرسکیں. نبی پاک کی ﷺ کی سُنت پہ عمل کرتے ہوئے تمام لوگوں کو اساتذہ کا احترام کرنا چاہیئے لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل اپنے اساتذہ کو وہ عزت و احترام نہیں دے رہی جو ان کا حق ہے.

پاکستان میں 50 فیصد ایسے طلباء ہیں جو ٹیچرز کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ان کی نظر میں استاد ان کا ملازم ہے کیوں کے ان کے والدین انہیں پڑھانے کی فیس ادا کر رہے ہیں ایسے طلباء کے مطابق اساتذہ کوئی احسان نہیں کر رہے. پرانے وقتوں میں لوگ اپنے استاد کے آگے نہیں چلتے تھے، دو قدم پیچھے ہو جاتے، احترامن تب تک کھڑے رہتے تھے جب تک استاد گزر نہ جائیں، 20 سال بعد بھی ملاقات ہوتی تو اخترام میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی، کتاب کا ورق بھی آہستہ الٹاتے تھے.

اور آج کل کے طلباء ادارے سے باہر آتے ہی ٹیچر کو گالیاں دیتے ہیں، نام سے پکارتے ہیں، اپنے مطلب کے لیے بناوٹی اخلاق دیکھاتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں اور تب تک سلام اور عزت کرتے ہیں جب تک سمسٹر یا کلاس پاس نہیں کر لیتے، اس کے بعد کونسا ٹیچر کہاں کا ٹیچر؟ طلباء حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بھول جاتے ہیں ”جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں، وہ چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بناکررکھے“ بھول جاتے ہیں کہ مر کر بھی استاد کا احسان نہیں اتار سکتے انسان کی روح تک استاد محترم کی احسان مند ہے.

اللہ تعالیٰ نبی پاک کو دنیا پر انسان کی تعلیم و تربیت کے لیے  نہ بھیجتے اور اس سلسلے کو جاری نہ رکھتے تو ہم تا عمر جہالت کے اندھیروں میں غرق رہتے، انسانوں کے لیے استاد اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا پیغام تعلیم حاصل کرنا ہے جوکہ بڑے بڑے نام ور کالجوں اور یونیورسٹیوں سےحاصل تو کر لیا لیکن کامیابیوں سے محروم رہے. علم حاصل کرنے کے لیے چین چلے جائیں گے لیکن اپنے ٹیچرز کا احترام نہیں کریں گے.

سر یا میم کہتے زبان درد کرے گی یا اپنی توہین سمجھیں گے. سکول سے اب تک کے سفر میں میں نے آج تک اپنے کسی دوست کو ٹیچرز کا ادب کرتے نہیں دیکھا ہمیشہ نام سے پکارتے سنا ہے، کلاس سے باہر آتے ہی برا بھلا کہتے ہی دیکھا ہے. ایسے نافرمان طلباء اپنے والدین کی کیا عزت کرتے ہوں گے؟ کیا ٹیچرز کا آپکی زندگی میں یہی مقام ہے؟ ان کی محبت، خلوص، محنت کی کوئی اہمیت نہیں؟ اگر ٹیچر نمبروں کی حد تک ہی ٹیچر ہے، اگر انہیں طلباء سے زاتی دشمنی ہے، شوہر/بیوی یا گھر والوں سے لڑ کر پڑھانے آتے ہیں، انہوں ٹھیک سے پڑھانا نہیں آتا یا نمبر کم دے رہے ہیں یا اور کہی مسائل ہیں ٹیچرز کے ساتھ تو ایسے طالباء تعلیمی اداروں میں آخر کر کیا رہے ہیں؟ انہیں چاہیے کہ وہ بچپن میں پڑھاۓ گئے استاد محترم کا احترام اور غزت مضامین دوبارہ پڑھیں.

آخر والدین کیوں اپنی اولاد سےاتنے غافل ہیں؟ تمام اساتذہ کرام بنی پاک کا عکس ہیں تو کیسے سوچ سکتے ہیں کہ کامیابیاں آپکے بچوں کا مقدر بنیں گی؟ کبھی سوچا ہے ہمارا ملک ہی کیوں پستی کا شکار ہے اس کے اصل وجہ یہئ ہے کہ ہم اساتذہ کو انکا اصل مقام درجہ نہیں دے رہے اور میرا ماننا ہے ٹیچرز کے بارے میں برا خیال رکھنے سے بھی بدنصیبی مقدر بن جاتی ہے تو طلباء کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں؟ ہمارا ملک، معاشرہ اور انسانیت سب تباہ ہیں.

جس نے استاد کی عزت نہ کی وہ علم، غزت اور کامیابی سے محروم رہے گا. پاکستان واحد ملک ہے جہاں کے بچوں کو استاد کا نہ مقام یاد رہا ہے اور نہ ہی معلوم ہے، یہاں تک کہ عزت دینے کی صلاحیتوں سے بھی بات بہت دور جا چکی ہے. اللہ پاک تمام اساتذہ کرام اور والدین کا سایہ ہم پر سلامت رکھیں اور طلباء کو ہدایت دیں آمین.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :