"کٹا، مرغی ، زراعت اور ہم"

پیر 18 جنوری 2021

Saad Awan

سعد اعوان

عنوان تو آپ کے لیے ہنسنے والا ہی ہوگا جی ہاں آج ہم جب یہ الفاظ سنتے ہیں تو ہنستے ہیں کہ کیا پینڈو پن ہے آجکل بھلا کون کٹے ، مرغیاں ، ٹریکٹر ، فصلوں اور زمینداری کی بات کرتا ہے یہ ہمیں اپنے سٹینڈرڈ سے نیچے کی چیزیں لگتی ہیں ہمارا سٹینڈرڈ تو سرکاری نوکری یا پرائیویٹ نوکری سے زیادہ کچھ نہی ہے
حقیقتا یہ بات ہنسنے کی نہی رونے کی ہے آئیے بتاتا ہوں کیوں
میرا تعلق ایک گاؤں سے ہے جو کہ اچھا خاصہ اب ڈویلپ ہورہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم عام ہورہی لیکن ایک چیز وقت کے ساتھ ساتھ کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی پہلے ہمارے گاؤں کے تقریبا ہر دوسرے گھر میں گائۓ یا بکری اور ہر تیسرے یا چوتھے گھر میں مرغیاں پالنے کا رواج تھا دودھ ، دہی ، انڈے گھر کے تھے اور جن کے پاس نہی تھی وہ دوسروں سے سستے داموں خریدتے رہے پھر آگیا ہمارا معیار ، سٹینڈرڈ ہم نے آہستہ آہستہ ان سب چیزوں کو پینڈو پن سمجھ کر اور خود کو ماڈرن سمجھ کر ترک کرنا شروع کردیا آج پورے گاؤں میں انگلیوں پر گنے جانے والے گھروں میں یہ چیزیں ہیں میرے محلے میں دو،تین گائے اور ایک بکری ہے باقی سب بازار سے یا آس پاس کے گاؤں سے آنے والا دودھ خریدتے ہیں
یہ حال صرف میرے گاؤں یا محلے کا نہی تقریبا ہر جگہ ایسا ہی ہے اب فارم ہیں گائے ،مرغیوں کے وہاں سے فارمی چیزیں دستیاب ہیں مل جاتی ہیں لیکن اب یہ ضرورت سے زیادہ کاروباری سیکٹر میں شامل ہیں
ابھی ایک پوسٹ پڑھ رہا تھا کسی اخبار کا تراشہ تھا کہ حکومت گھروں میں سبزی اگانے کا پراجیکٹ لانچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ساتھ لکھا تھا شیخ چلی کے منصوبے ۔

(جاری ہے)

۔۔۔
کوئ سیاسی بات تو نہی کرنا چاہتا لیکن یہ آخری الفاظ واضح کرتے ہیں ہم ہنسنے والے لوگ ہیں اور ہماری یہ ہنسی اصل میں اپنے آپ پہ ہونی چاہیے
دنیا کے کئ ممالک میں سبزیاں چھتوں پر اگائ جاتی ہے بیچنے کو نہ سہی کم سے کم اپنی ضروریات تو پوری ہوسکتی ہیں نیوزی لینڈ آسٹریلیا میں زراعت بہت بڑا سیکٹر ہے وہاں یہی مرغیاں ، کٹے ہی پالے جاتے
دراصل قصور ہمارا نہی ہے ہماری ذہن سازی ایسی کردی گئ ہے کہ ہمیں اپنی حالت پہ ترس نہی آتا ہمیں انڈے کتنے کا درجن ہے ہر ہفتے مہنگائ کمر توڑتی ہے لیکن مجال ہے ٹس سے مس ہوں
اگر ہم سیدھی نیت سے سیاست سے ہٹ کر اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئ کام اچھی نیت سے شروع کردیں تو بہت کچھ حاصل ہوسکتا ہے یقین کریں ہماری زراعت بہت پیچھے ہے اسکی بہت بڑی وجہ جہاں حکومتوں کی اس طرف توجہ نہ ہونا ہے وہیں ہماری توجہ بھی ضرورت سے بہت کم ہے ہم چھوٹے پیمانے پر سہی یہ کام شروع کردیں تو ہمارے سروں سے یہ بوجھ کم سے کم اتریں گے تو سہی ہمارا زیادہ تر ملک دیہات پر مشتمل ہے اور جو شہری آبادی ہے ان میں سے بھی زیادہ تر دیہات کا بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں انفرادی نہ سہی تھوڑا تھوڑا کرکے یہ کام اجتماعی طور پر بھی شروع کردیا جائے تو شاید ہماری ضروریات آسانی سے پوری ہوسکیں سہل پسندی اور نوکری ان دو چیزوں میں ہم سٹینڈرڈ ڈھونڈتے ہیں یقین کریں معیار وہی ہے جو آپ کی ضرورت بغیر کسی تنگی سے پوری ہوں آپ خود کفیل ہو
نوکری کوئ برا کام نہی وہ بھی کام ہے لیکن یہ چیزیں نوکری کے ساتھ ساتھ بھی کی جا سکتی ہے
لیکن ہم سب ہنسنے والے ہیں اور ہنستے رہیں گے یہ سرمایہ دارانہ نظام ہماری کھوکھلی ہنسی دیکھ کر مزید مسکراتا ہے فارمی مرغی کے اونر خوب ہنسے ہوں گے جب ہم مرغیاں پالنے والی بات پہ ہنسے تھے
ڈبوں میں بند دودھ بنانے والی کمپنیاں خوب ہنسی ہونگی جب ہم کٹوں پر ہنس رہے تھے
یہی تو سرمایہ دارانہ نظام ہے جو غریب کو نچوڑ کے ہنستا ہے اور غریب بیچارا سمجھتا ہے کہ یہ بھی کوئ کرنے کی چیزیں ہیں انڈے اور دودھ ہم پیسوں سے خرید لیں گے اور جب وہی سرمایہ دار قیمتیں بڑھاتا ہے تو ہمارے پاس سوائے تنقیدی الفاظ کے یا خودکشیوں کے کچھ نہی ہوتا ۔

۔۔۔۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں سیاست بھی چلتی رہتی ہے لیکن عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے اور دوسروں کے فائدے کے لیے اچھی چیزوں کو ایڈاپٹ کرتا ہے وہ خود کو پاور فل محسوس کرتا ہے اسے پتا ہوتا ہے جب تک میں نہ چاہوں کسی کی مجال نہی کچھ کرسکے لیکن ہم ٹھہرے ہنسنے والے اس تحریر پہ بھی چلیں ہنس لیتے ہیں کیا جاتا ہے ہنسنا ہی تو ہے اسی ہنسی ہنسی میں کیا کچھ شامل زندگی ہوچکا ہے اس کا ادراک وقت آہستہ آہستہ کرواتا رہے گا
ہسننے سے پہلے سوچیے گا کہ کس پر ہنس رہے ہیں ؟
میرا مشورہ ہے خود پہ ہنس کے دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ
( یہ پوسٹ خالصتا سیاسی نقطہ نظر سے ہٹ کر لکھی گئ اس لیے کسی مغالطہ میں مت رہیے گا)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :