بابا جی کے نام

جمعہ 25 دسمبر 2020

Saad Awan

سعد اعوان

بابا جی(بانی پاکستان)  میں ایک عام پاکستانی آپ سے دلی معزرت چاہتا ہوں اپنی طرف سے اپنی قوم کی طرف سے ہمیں دن یاد رہتے ہیں مقصد یاد نہی رہتے
بابا جی آپ نے کہا تھا کام کام اور کام آج حال یہ ہے کہ سب کام کام اور کام میں لگے ہیں لیکن جب اس کام کی حقیقت دیکھی جائے تو وہ کام کا پاکستان کے وجود کے مقصد سے کہیں تعلق نظر نہی آتا
 آج پاکستان کے لیے ہم صرف نعروں، ریلیوں ،جھنڈوں ، سوشل میڈیا پہ سٹیٹسوں، ڈی پی لگانے کے علاوہ کہیں وہ جزبہ کہیں وہ لگن نظر نہی آتی بابا جی آپ کے ملک کا حال بے حال کردیا ان ستر سالوں نے آپ کے ملک کا چپڑاسی سے لے کر اوپر تک سب کام تو کرتے ہیں لیکن جیبوں کے لیے اپنے لیے ، سب محنت تو کرتے ہیں لیکن دوسروں کو تکلیف دینے کی  ، بابا جی آپ کے ملک کے اداروں کا حال بتانے بیٹھا جائے تو روزانہ کی بنیاد پر گول میز کانفرنسیں ہوسکتی ہیں پھر بھی آپ جانچ پڑتال نہی کرسکتے کرپشن رچ بس چکی ہے کام کام اور کام کے سلوگن کو ایسا استعمال کیا جائے گا کبھی شاید آپ نے تصور بھی نہی کیا ہوگا
بابا جی آپ نے اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی تھی آج میرے ملک میں اقلیت تو دور اپنے مسلمان بھائیوں کا گریبان پکڑا جا رہا کوئ راستہ نہی دیا جا رہا اختلاف کو ذاتی انا کا مسئلہ بنایا جا رہا ہے ہر طرف غیر یقینی ہے کون کب کسے کیا فتوہ لگا کر نقصان پہنچا دے
بابا جی یقینا یہ ناقابل تلافی نقصان ہے جو 1948 سے ہم اس ملک کو پہنچا رہے ہیں اس کی معافی نہی ہے لیکن بابا جی اس ملک میں وہ لوگ بھی ہیں جو آج بھی آپ کے اصولوں کو لے کر چلنے کی خواہش  کرتے ہیں وہ سوشل میڈیا پروفائل شاید نہ لگاتے ہوں وہ ریلیاں نہ نکالتے ہوں لیکن حقیقی معنوں میں وہ قائد کا پاکستان چاہتے ہیں وہ پاکستان نہی جہاں دو طبقے آپ کے بیانات کو اپنے مفادات کا جامہ پہنا کر اس ملک کی عوام کو غلام بنا رہے ہیں آپ نے آزاد کروایا تھا لیکن ہمیں پھر غلامی میں دھکیلا جاتا رہا۔

(جاری ہے)


بابا جی یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئ حیران سنتا ہوں تو آج کی دنیا میں جو کچھ میرے ملک کے بارے میں کہا جاتا ہے میں پریشان ہوجاتا ہوں کبھی دہشت گرد کبھی کیا کبھی کیا لیکن بابا جی اس سب میں قصور تو ہمارا بھی ہے ہم نے تو شروع سے اتحاد ایمان اور تنظیم کے انمول اصول کو یکسر فراموش کردیا چاہے ہمارے ماضی میں بنگالی بھائ ہوں یابعد کے بلوچی اور سندھی ہر طرف ایک تعصب اور گمراہی کی فضا بنا دی گئ آج ہر طرف بو ہے اس زہر کی جس کا اثر اس ملک کی رگوں کو کاٹ رہا۔


بابا جی لیکن امید کی ایک کرن ہے جیسے دنیا نے سوچا بھی نہ تھا کہ 1947 میں پاکستان وجود میں آئے گا وہ امید تھی مسلمانان ہند کی اور آج بھی ہماری امید پختہ ہے آج بھی ہمارا دل کہتا ہے اس ملک کے دن بدلینگے سنہرا دور شروع ہونے کو ہے
یقینا حکمران کا ہی نہی سب کا کام ہے کہ وہ کام کریں ملک کے لیے اس کو مقصد بنا لین اور اس کو ساتھ لے کہ چلیں مخلص ہوجائیں
ان شاء اللہ اس ملک کا مقدر بھی بدلے گا اور جو مقصد تھا وہ حقیقی معنوں میں پورا ہوگا ان شاء اللہ
اللہ سے دعا ہے وہ ہر پاکستانی کو محب وطن بنا، محبت اور بھائ چارے والا بنا آمین ثم آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :