ماحولیاتی تبدیلیاں اور خواتین پر اثرات

بدھ 11 نومبر 2020

Saadia Shamim

سعدیہ شمیم

دنیا بھر کے لیے ماحول اورخصوصاً بدلتے موسم اب ایک ترجیحی مسئلہ بن چکا ہے۔بدلتے موسموں کا اثر دنیا کے مختلف حصوں پر مختلف ہوتا ہے لیکن زیادہ تباہ کاریاں ترقی پزیر ملکوں کے غریب عوام بھگت رہے ہیں۔معاشی خوشحالی صحت و صفائی اور صاف پانی تک رسائی غریب کے لیے نا ممکن ہوگئی ہے۔ایسی ترقی پذیز ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے جس میں موسمی تبدیلی کے بہت منفی اثرات ہے۔

جیسے سیلاب کا آنا ،گلیشئر کا پگھلنا اور درختوں کی کٹائی ماحول میں بگاڑ کی وجہ ہے۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر محفوظ ہونے کا مالمی اعتراف کیا گیا ہے اور پچھلی ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمیاتی واقعات بشمول سیلاب،قحط سالی،گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے پٹھنے سے آنے والے سیلاب، سائیکلون اور ہیٹ ویو کے باعث نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوا بلکہ معشیت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

(جاری ہے)


ماضی کی بات کی جائے عت قدرتی آفات اور سمندری طوفان کے امکانات ایک صدی میں صرف ایک مرتبہ ہوا کرتا تھا ۔لیکن سمندروں کا گرم ہونا اور برفانی خطوں کا پگھلنا ،فضا میں کاربن ڈائی آسائیڈ کے مقدار حد سے بڑھ جانے کے باعث یہ انسانی زندگی کو بہت زیادہ متاثر کر رہا ہے ۔
یونائیٹڈ ان سائنس نامی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صنعتی انقلاب سے پہلے والے دورکے مقابلے میں اب تک درجہ حرارت صرف 0.2ڈگری بڑھا تھا مگر ان پانچ سالوں کے دوران درجہ حرارت خطرناک حد تک یعنی 2.2تک بڑھ گیا ہے۔

اور پچھلے پانچ سالوں میں سیلاب سے پاکستان میں تقریباً 3826دیہات متاثر ہوئے اور ایسی سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی ذرخیز زمین اور مویشیوں کو بھی نقصان پہیچا ہے۔
لیکن یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہ بدلتے موسم خواتین کے لیے خصوصی پریشانی کا باعث بنتے ہیں ۔خواتین اور قدرتی وسائل لازم و ملزوم ہیں ماحولیاتی تبدیلی کا خسارہ ذیادہ تر خواتین ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔

جیسے جیسے قدرتی وسائل آلودہ ہوتے چلے جاتے ہیں ویسے ہی خواتین کے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
پاکستان میں لاکھوں ایسی خواتین ہیں جو کہ اپنے گھر کے ساتھ ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں گندم کی کٹائی اور کپاس چننے کا کام کر رہی ہیں۔
ایسی حوالے سے ھالاناکہ کی محنتی رضیاء نے بتایا کہ گاؤں میں عورتوں کی صبح اندھیرے میں طلوع ہوجاتی ہے۔

گھر کے تمام کام مثلاً کنوؤں سے پانی بھر کر لانا ،مویشی چرانا پھر ان کا دودھ دھونا ان تمام کام کی ذمہ داری ہم عورتوں پر ہوتی ہے۔گھر کے کاموں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے10سال کی بچی سے لے کر حاملہ عورت بھی کھیتوں پر کام کرتی ہے جس سے اسکی صحت اور نوزائیدہ بچے پر اثر انداز ہوتے ہیں،جیسے کام کے دوران لُو لگ جانا،سانپ کا ڈسنا، کیڑے مار دوائی کے مضر اثرات خطرات کا حصہ ہے جس سے ماں اور بچہ دونوں متاثر ہوتی ہے اسکے با وجود ہمیں محنت کا پورا پھل نہیں ملتا۔


ولڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اندازاً ہر سال 20,000افراد ان زہریلی دواؤں کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
صاف پانی کی فراہمی بھی نہ ہونے کی وجہ سے دیہات کی خواتین دور دراز پیدل سفر کر کے پانی اٹھا کر لاتی ہیں جس میں نہ صرف ان کے قیمتی وقت کا ضیاء ہوتا ہے بلکہ وزنی برتن میں پانی بھر کے لانے سے بھی انکی صحت بہت متاثت ہوتی ہے گویا پانی کی قلت بھی عورت ہی بگھتی ہے۔


شہروں کا سب سے بڑا مسئلہ آلودگی ہے ۔شہری عورت ایک بہترین صارف بھی ہے وہ اگر ایک سمجھدار صارف کا کردار ادا کرے تو ہماراماحول بہت سی مشکلات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔عورت چاہے تو آلودگی سے بچاؤں کے لیے کام کرسکتی ہیں۔پانی کا کم استعمال،کچرے کا مناسب بندوبست اس کے اپنے ہاتھ میں ہے وہ اپنے اردگرد موجود آب ذخائر کو آلودگی سے بچانے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت ایسی پالیسی بنائے جس میں عورتوں کو بڑے پیمانے پر شامل کیا جائے تب ہی شاید کوئی بہتری کی صورت نکل سکے گی اور عورت کم متاثر ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :