پاپائے روم کا دورہ ابو ظہبی ، پاکستان میں صہیونی گماشتے سرگرم

اتوار 17 فروری 2019

Sabir Abu Maryam

صابر ابو مریم

حالیہ دنوں پاپائے روم مسیحی دنیا کے ایسے واحد رہنما ہیں کہ جو گزشتہ آٹھ سو برس میں پہلے پاپ ہیں کہ جو کسی عرب سرزمین پر آئے ہیں۔ یقیناًان کا یہ دورہ مسلمانوں اور مسیحی برادری کے مابین محبت و الفت کا مظہر ثابت ہوا اور ہونا بھی چاہئیے۔ پاپائے روم کے دورہ کو جہاں ابوظہبی میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا وہاں دنیا بھر کی مہذب قوموں نے اس دورہ کو مثبت انداز میں بیان کیا ہے لیکن پاکستان کی سرزمین پر موجود صہیونی گماشتے موقع کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے اور حالات و واقعا ت کا رخ موڑ کر اسرائیل کی نوکری کرتے ہوئے پاکستان میں اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے ماحول سازی کر کے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات و افکار کو پامال کیا جائے اور پاکستان کی پیٹھ میں خنجر سے گہرا وار کیا جائے۔

(جاری ہے)

 معروف اینکر کامران خان نے پاپائے روم کے دورہ ابو ظہبی پر تبصرہ انتہائی مہارت اور چالاکی کے ساتھ مثبت انداز میں شروع کرتے ہی ساتھ اس کو اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کے ساتھ جوڑتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات بنوانے کے لئے جوڑ دیا جس سے ان کے پس پردہ ناپاک عزائم کھل کر سامنے آئے اور اس ناپاک کھیل میں ان کا ساتھ دینے کے لئے نام نہاد معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا ، یہ موصوف تو صہیونیوں کی نمک خواری میں اس قدرآگے چلے گئے کہ قرآن مجید کی آیات کے بارے میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ آیات تو اس وقت کے لئے آئی تھی گویا آج کے زمانے میں ہم ان آیات کو فراموش کر دیں یا یہ کہ اب یہ آیات اس قابل نہیں ہیں (نعوذ باللہ )۔

معروف اینکر نے انتہائی مہارت اور چالاکی کے ساتھ پہلے سوال میں بات کی کہ کیا مسیحی ممالک اور مسلم ممالک کے تعلقات اور خارجہ تعلقات میں کوئی قدغن ہے؟ اس بارے میں مہمان اسکالر نے کہا یقیناًکوئی قد غن نہیں، ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ یقیناًکوئی قد غن نہیں ہے ، البتہ اینکر نے مسیحی اور مسلم تعلقات کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو جان بوجھ کر زیر سوال رکھا اور یہاں پر ان عرب ممالک کوبھی درست ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنہوں نے غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور ان ممالک کو پاکستان کے لئے پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

حالانکہ ان کو چاہئیے تھا کہ یہ عوام کو بتاتے کہ اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے جو فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کئے ہونے کے ساتھ ساتھ گذشتہ ستر برس سے مظلوم فلسطینیوں کے خون کی ندیاں بہانے میں مصروف عمل ہے اور اسرائیل کی اس جارحیت اور دہشت گردانہ اقدام کو امریکہ کی مسلسل سرپرستی بھی حاصل ہے لیکن شاید اس کام کے لئے دونوں حضرات کو ڈالرز ادا نہیں کئے گئے تھے۔

درج بالا سوال کے تعلق سے اینکر نے سوال اٹھا یا تھا کہ قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو دوست نہ بناوٴ، تو اُسکے جواب میں نام نہاد مذہبی اسکالر نے قرآن کی آیات کو ماضی کے زمانہ تک محدود قرار دے دیا کہ گویا قرآن کے کچھ حصے ماضی سے منسوب ہیں اور اب آج کے دور میں ان سے سبق لینے کی ضرورت ختم ہو چکی ہے(نعوذ باللہ)۔

دونوں حضرات نے انتہائی مہارت کے ساتھ ایسے سوالات پیدا کئے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت پاپائے روم کے دورہ کو اس طرف موڑ کر پیش کیا کہ عرب ممالک کے بعد اب پاکستان کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لینے چاہئیں ، دراصل یہی وہ ناپاک سازش تھی جو صہیونی گماشتوں کے اس عمل سے آشکار ہوئی اور پاکستان کے عوام باخبر ہوئے کہ پاکستان کو کھوکھلا کرنے اور غیر مستحکم کرنے کے لئے کس کس بھیس میں کالی بھیڑیں موجو دہیں۔

یہاں پر واضح رہے کہ مسلمانوں کے مسیحیوں کے ساتھ یا پھر کسی بھی اور مذہب کے ساتھ خواہ یہودی بھی کیوں نہ ہو تعلقات میں کوئی حرج یقیناًنہیں ہے اور اس حوالے سے اسلامی تعلیمات میں باقاعدہ پیر امیٹرز موجود ہیں۔جہاں بات اسرائیل کی ہو تی ہے تو یہاں معاملہ مسلمان اور عیسائی اور یہودی تعلقات کا نہیں ہوتا ہے بلکہ یہاں معاملہ مظلوم اور ظالم دونوں میں سے کسی ایک کے چناوٴ کا ہے۔

فلسطینی عرب کہ جس میں مسلمان، عیسائی، یہودی (جو صہیونیوں کو مسترد کرتے ہیں) سب کے سب شامل ہیں اور سب کی ایک آواز ہے کہ اسرائیل ایک غاصب جعلی ریاست ہے اور فلسطین پر اس کا ناجائز تسلط کا خاتمہ کیا جائے۔اسی طرح امریکہ میں یہودیوں کی بہت بڑی تعداد موجو دہے جو فلسطین کی حمایت کرتی ہے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

ذکر کیے گئے پروگرام میں دونوں موصوف عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیتے ہوئے غاصب صہیونی ریاست کی حمایت میں زمینی سازی کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے کیونکہ جب انہوں نے عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کی بات کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کہ عقیدہ ریاستوں کے تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہو سکتا ، یقیناًاس بات پر سب متفق ہیں کہ کسی کے عقیدہ سے متعلق ریاستوں کے تعلقات انحصا ر نہیں کرتے بلکہ اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔

اس گفتگو کا ڈرامائی موڑ عین اس وقت پیش آیا جب اینکر نے نام نہاد مذہبی اسکالر سے پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بات کر ڈالی اور جواب میں انہوں نے کہا کہ دیر آئے درست آئے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نام نہاد مذہبی اسکالرجو عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیتے تھک نہیں رہے تھے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو کس طرح کی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کے زمرے میں شمار کرتے ہیں؟ جعلی ریاست اسرائیل کا قیام کیا عالمگیر اخلاقیات کا نمونہ ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں، عیسائیوں اور صہیونی مخالف یہودیوں کو جبری جلا وطن کرنا کیا جاوید غامدی کی عالمگیر اخلاقیات اور انسانیت کے زمرے میں ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :