گجرات یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ایک مختصر سی نشست۔قسط نمبر1

بدھ 28 جنوری 2015

Sabookh Syed

سبوخ سید

گجرات یونی ورسٹی کے کچھ طلبہ نے اپنی محبتوں کا اظہار کرتے ہوئے دعوت دی ۔ طلبہ کی دعوت کو میں نے ہمیشہ حکم کے درجے میں رکھا ۔جب ہم پشاور یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو کسی شخصیت کا بلانا ہوتا تو کبھی مایوسی نہیں ہوئی ۔ اہم شخصیات نے ہمیشہ پذیرائی کی اور دعوت قبول کی ۔پبلک سروس کمیشن کے سابق چئیرمین عبداللہ صاحب ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے ۔

ایک بار ایک پروگرام کے سلسلے میں فون کیا تو فرمایا ،
”میں طلبہ کی دعوت کو ،درخواست نہیں حکم سمجھتا ہوں “
یہ احساس کتنا خوش گوار ہوتا ہے کوئی طالب علم
آپکی عزت کرتا ہے ،
محبت سے ہاتھ ملاتا ہے ،
بغیر کسی تعصب کے بلاتا ہے
کیونکہ زمانہ طالب علمی میں کوئی طالب علم ،کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ، یہ عمر بادشاہوں کی طرح ہوتی ہے اور بادشاہ کسی کو عزت دیں تو احساسات کی دنیا خوشگوار بن جاتی ہے ۔

(جاری ہے)


یونی ورسٹی پہنچا تو کافی نوجوان جمع تھے ۔ ہم نے بھی اپنی رومانوی عمر انہی بکھیڑوں میں برباد کر ڈالی تھی ۔ مجھے کھیل کود اور رومانس کی عمر میں ان نوجوانوں کے چہروں پر سنجیدگی نے ڈرا ہی دیا تھا ۔ میرے دل کے اندر سے ایک درد اٹھا اور مجھ سے رہا نہ گیا ۔
جبر کا انکاری بولا
انتہائی پیارے دوستو
مجھے یہاں بلانے کا بہت شکریہ
میرے پاس دو آپشن ہیں ۔


ایک تو میں یہاں وہ گفت گو کروں جو آپ کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کر تی ہو۔ آپ خوش ہوں ، تالیاں بجائیں اور نعرے لگائیں ۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ میں وہ گفت گو کروں کہ جو آپ کی اختیار کردہ سوچ اور نظریات کے خلاف ہو ، اس صورت میں ممکن ہے کہ یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہو ، اور آپ دوبارہ مجھے دعوت دینے کی زحمت گوارا نہ کریں ۔ مجھے اس چائے محروم ہونا پڑے گا ،جو آپ نے مجھے پلائی ۔


میں کیونکہ ایک لمبا سفر کر کے آیا ہوں اور فروری کا مہینہ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے بھی معروف ہے ۔ میں نہیں چاہتا کہ محبتوں کے مہینے میں ایسی باتیں کروں کہ آُ پ کو مجھ سے ہی نفرت ہو جائے ،تو میں اپنے مزاج کے خلاف بات کرنا چاہوں گا ، آپ ذہین اور صبر والے لوگ ہیں ،امید ہے کہ آپ میری بات کو سمجھ جائیں گے اور ناقابل برداشت باتوں پر صبر کریں گے ۔


میں بات سمجھانے کے لیے آپ کے دماغوں کے راستے آپ کے ذہن میں داخل ہونے کی اجازت چاہتا ہوں ۔
آپ اپنے گھر کے ماحول سے ہی بہت کچھ سیکھتے اور سمجھتے ہیں ۔ ان گھروں میں ایک تہذیب پروان چڑھتی ہے جس کے سائے میں آپ پرورش پاتے ہیں ۔ جس مذہب یا نظریہ پر آپ کھڑے ہیں ،اس میں کمال آپ کا نہیں ،بلکہ اس ماحول کا ہے ۔
آپ مسلمان ہیں ،
اس لیے نہیں کہ آپ دنیا بھر کے ادیان کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ سب سے اچھا دین اسلام ہے اور آپ مسلمان ہو گئے ۔


آپ مسلمان ہو ئے نہیں ، مسلمان بنائے گئے ۔
اسلام آپ کے افکار کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ امکان ہے کہ آپ کے والد کی فکر کا نتیجہ ہو ،
ہو سکتا ہے کہ کسی اور نے سوچا ہو اور اس کی فکر کا نتیجہ ہو
لیکن یہ تو طے ہے کہ اس میں آپ کا ذاتی طور پر کوئی کمال نہیں ۔
آپ کو عبادات سکھائی گئیں ،
گھر والوں نے روزہ رکھا ،آپ بھی رکھ رہے ہیں ،
گھر والوں نے حج کیا ،آپ نے بھی کر رہے ہیں ،
ابو آپ کو مسجد میں نماز کے لیے ساتھ لیکر گئے ، آپ بھی جا رہے ہیں ،
ابو نے نماز پڑھ کر مولوی صاحب کی عزت کی ، آپ نے بھی کر رہے ہیں ،
مسجد سے نکلتے ہوئے ابو نے صندوقچی میں چندہ ڈالا ، آپ بھی ڈال ر ہے ہیں ۔


آپ کے والد ،اسکول کے استاد یا مذہبی رہ نما نے آپ کو پڑھنے کے لیے مخصوص کتب تاریخ اور نظریاتی لٹریچر دیا ، آپ نے وہ پڑھ لیا جس سے آپ کے خاص قسم کے نظریات اور ذہن بنا ۔
اور اب یہی سب کچھ آپ اپنے بچوں کو بھی سکھا ئیں گے یا سکھا رہے ہیں ۔
میرے کہنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ برا کر رہے ہیں ، میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں ۔

آپ کے مادر پدر کا کمال ہے کیونکہ یہ آپ کے نتائج فکر نہیں ۔
میں اگرسلسلہ کلام کو کچھ دیر کے لیے منقطع کر کے آپ سے پوچھوں کہ آپ میری باتوں سے اتفاق کر رہے ہیں تو مجھے قوی امید ہے کہ آپ میری رائے سے اتفاق کر یں گے ۔ (سب نے اتفاق بھی کیا )
اب میں آپ سے دوسرا سوال پوچھنا چاہتا ہوں
کیا اس گھر میں ، اس ملک میں ، اس قبیلے میں یا اس خاندان میں پیدا ہونے کا انتخاب آپ کا اپنا تھا ؟
نہیں ( سب نے جواب دیا )
اس رنگ ، حلیے ، جسامت ، قامت کا انتخاب آپ اختیاری تھا یا جبری
جبری (سب نے جواب دیا )
تو لمحے بھر کے لیے تصور کریں کہ
اگر آپ کسی مسیحی ، یہودی ، سکھ ،ہندو ، دھریے یا کسی اور قوم ،ملک ،قبلیے میں پیدا ہو جاتے ،تو کیا ایسے ہی ہوتے جیسا کہ آج ہیں ؟
نہیں ، (سب نے متفقہ طور پر جواب دیا )
تو پھر میں آپ سے ایک جواب کی زحمت اور چاہوں گا ۔


جس طرح آپ کو مسلمانوں والا ماحول ملا ، دوسرے کو کسی اور طرح کا ماحول ملا تو اس میں آپ کا کمال کیا ہے اور اس کا قصور کیا ہے ؟
نوجوان مسکرانے لگے ۔
لیکن قصور ہے
اور وہ قصور یہ ہے کہ آپ نے اپنے ماحول ، تاریخ ، مذہب ، معاشرت کو کمال سمجھا اور اسکی تاریخ ،ماحول ،مذہب اور معاشرت میں خامیاں نکال کر اسے قصور وار قرار دیا ،اسی طرح اس نے بھی آپ کو قصور وار سمجھا اور خود کو کمال سمجھا ۔یوں حماقتوں کی دو انتہاؤں نے تہذیبوں کے درمیان جنگ چھیڑ دی ۔
تہذیبوں کے درمیان جنگ کی وجہ صرف یہی نہیں تاہم ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ۔(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :