"اداروں میں پیشہ ورانہ رویہ کیوں ضروری ہے؟"

بدھ 15 اپریل 2020

Safia Haroon

صفیہ ہارون

آج ہمارے معاشرے میں جتنی بھی خرابیاں اور بگاڑ پیدا ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں، اس سب کے ذمہ دار کہیں نا کہیں ہم خود بھی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے رویوں میں لچک نہیں ہے۔ ہمارے اندر عدم برداشت کا مادہ اپنے آہنی پنجے گاڑ چکا ہے۔ آپ کسی بھی ادارے میں ہوں، آپ کا پیشہ ورانہ رویہ خود آپ کی اپنی ذات کے لیے، آپ کے ماتحت لوگوں کے لیے اور آپ کے سماجی میل جول والے لوگوں کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔

پیشہ کیا ہے؟پیشہ سے مراد ایک ایسے روزگار زندگی یعنی حِرفہ کی ہوتی ہے کہ جس کو اختیار کرنے کے ليے مشق اور تعلیم کے ساتھ ساتھ خصوصی معلومات کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور عام طور پر اس کا واسطہ یا رابطہ کسی پیشہ ور ادارے سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ فنیہ یا پیشہ کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں جس پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

پیشے کی تعلیم کی تکمیل کے بعد کوئی سند عطا کی جاتی ہے جو یا تو ایک دانش نامہ ہو سکتا ہے یا کوئی  ڈگری بھی۔

اس سند کے ساتھ مشق یا تدریب کی مدت مکمل ہوجانے کے بعد ایک اجازہ یعنی لائسنس دیا جاتا ہے جو تعلیم مکمل کرنے والے پیشہ ور کو اس شعبہِ  حیات میں ایک ماہر کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
تاریخی طور پر تین پیشے اپنی الگ شناخت رکھتے تھے : وزارت، طب اور قانون۔ ان تینوں پیشوں کے اپنے دستور آداب تھے جن پر عمل درآمد کرنا لازمی ہوتا تھا۔

ان پیشوں میں داخل ہونے کے لیے حلف نامہ لیا جاتا تھا۔ کچھ قوانین و ضوابط کی پاسداری لازمی تھی۔ بقیے پیشے ان کے بعد وجود میں آۓ اور سب پیشوں کے لیے ضروری اصول و ضوابط متعین کیے گۓ۔
کسی شعبہِ حیات کو پروفیشن اس وقت کہا جاتا ہے جب کم از کم اس میں مشق، تعلیم، خصوصی معلومات، حاصل کردہ سند اور حلف برداری جیسے عناصر شامل ہوں۔ جبکہ ایک پیشے کے ليے ان تمام عناصر کی ضرورت نہیں ہوا کرتی اور اگر کوئی صرف مشق کر کے اور سیکھ کر کوئی بھی روزگارِ حیات اختیار کرتا ہے تو ہم اس کو پیشہ ہی کہتے ہیں۔

اکثر سماجی ماہرین نے پروفیشنلزم کو ایک قسم کی خود ساختہ امتیازیت کہا ہے یا وہ اسے طائفہ کے خطوط پر استوار ایک خصوصی تنظیم سازی بھی کہتے ہیں۔ جارج برنارڈ شاہ پیشہ وریت کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں: ترجمہ: "عوام کے خلاف خیانت سازیاں۔"
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی شعبہ میں داخل ہونے کے لیے بنیادی تعلیم پر تو زور دیا جاتا ہے لیکن کیا کبھی کسی نے پیشہ ورانہ رویہ پر بھی غور کرنے کی کوشش کی؟ ہو سکتا ہے کوئی ماہر یا اعلٰی تعلیم یافتہ انسان جس کے پاس تعلیمی اسناد، اعزازی سرٹیفیکیٹس اور گولڈ میڈلز کا انبار موجود ہو لیکن وہ پیشہ ورانہ رویہ سے محروم ہو۔

جاہل صرف وہ نہیں ہوتا جو تعلیم یافتہ نا ہو، جاہل وہ بھی ہوتا ہے جس نے ڈگریوں کے ڈھیر لگا رکھے ہوں مگر اپنے ظرف میں وسعت، لہجے میں نرمی و لچک اور طبیعت میں انکساری پیدا نا کر پایا ہو۔ کسی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے پاس کتنی ڈگریز ہیں یا آپ کتنے گولڈ میڈلز حاصل کر چکے ہیں، لوگ آپ کے اندازِ گفتگو سے ، آپ کے لہجے سے آپ کو پہچانتے ہیں۔

کچھ لوگ اپنی ورکنگ پلیسز پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ساتھ آپ کا مثبت رویہ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگ خود ستائشی و خود نمائی میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی باتوں سے اپنے سے کم تر درجے کے ملازمین کو زِک پہنچا رہے ہیں۔

اگر آپ کے پاس عہدہ یا دولت ہے تو اس کی نمائش کی کیا ضرورت ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ صرف باتوں تک ہی محدود ہیں؟ ناجانے وہ کون سے لوگ ہیں، مردہ ضمیر کے حامل، جن کا ضمیر یہ بات گوارا کرتا ہے کہ آپ اپنی جاب پلیس پر آئیں، وقت گزاری کریں اور فارغ بیٹھ کر چلے جائیں۔ ایسے لوگوں سے ایک بہت عام سا سوال ہے کہ اگر آپ کام نہیں کر سکتے تو تنخواہ کس بات کی لے رہے ہیں؟ ہمارا تعلق ایسے پروفیشن سے ہے جہاں ایسے ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے کہ لوگ ماہانہ لاکھوں تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن فارغ بیٹھ کر واپس چلے جاتے ہیں۔

بلکہ اس کے مقابلے میں کچھ ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جن کی بہت معمولی سی تنخواہ ہے لیکن وہ اپنے فرائض پوری ایمانداری اور خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ آفیسر ہیں یا کچھ لوگوں پر آپ کو نگران مقرر کر دیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر طرح کے سیاہ و سفید کرنے کا حق آپ کو حاصل ہو گیا ہے۔ احتساب آپ کا بھی ہونا ہے چاہے آپ کسی بھی عہدے پر کیوں نا ہوں۔

کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کے ماتحت لوگوں کے ساتھ آپ کا رویہ کیسا ہے؟ کہیں آپ اپنی برتری کے زعم میں اپنے ماتحت عملے کی عزت نفس کو کچل تو نہیں رہے؟ کیا کبھی اپنے ماتحت عملے کے رویے پر غور کرنے کی کوشش کی کہ کیا واقعی وہ لوگ آپ کو دل سے عزت و تکریم دیتے ہیں یا پھر آپ کے عہدے کی وجہ سے آپ کی اطاعت کرنے پر مجبور ہیں؟ اگر واقعی آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ماتحت آپ کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کریں تو پہلے آپ کو اپنے ماتحت لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔

اپنےخوش اسلوبی والے رویے سے ان کے دلوں میں جگہ بنانی ہو گی۔ ایک آفیسر اپنے ماتحت عملے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر آپ کا رویہ اپنے ماتحت عملے کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے تو یقین مانیے آپ کا عہدہ، آپ کا اختیار دو کوڑی کا بھی نہیں ہے۔ لوگ آپ کو اپنے عہدے کی وجہ سے نہیں، آپ کے رویے کی وجہ سے یاد رکھتے ہیں۔ حضور پاکﷺ نے بھی اخلاقِ حسنہ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے۔

آپﷺ بذاتِ خود اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز تھے۔ آپﷺ نے اپنے ساتھی صحابہ رضی اللّٰہ عنہ سمیت تمام غیر مسلموں کے ساتھ بھی اخلاقِ عظیم کا جو عملی نمونہ پیش کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
ضروری نہیں کہ ہر جگہ آفیسرز کا رویہ ہی غیر پیشہ ورانہ ہو، بعض جگہوں پر ماتحت عملے کا رویہ بھی غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ ہے۔ اگر آفسیر ایماندار ہے تو اس کا ماتحت عملہ غیر ذمہ داری، بےایمانی و بدعنوانی کی مثال پیش کر رہا ہوتا ہے۔

آپ کا شمار نگران عملے میں ہوتا ہو یا ماتحت عملے میں، آپ کو اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنی چاہیے۔ آج ہمارے اندر برداشت کا مادہ بہت کم ہو گیا ہے یا یوں کہ لیجیے کہ ہم میں برداشت نام کو نہیں ہے۔ہم کسی کی غلط بات تو کیا، ہم صحیح بات کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ ہمارے اندر "انا" اور "میں" بہت آ گئی ہے۔ ہم غلطی پر ہوتے ہوۓ بھی اپنے آپ کو غلط قرار نہیں دیتے۔

ہمیں لگتا ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں، وہ بالکل ٹھیک ہے اور باقی سب غلط ہیں حالانکہ طبیعتوں کا اختلاف فطری سی بات ہے۔ کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کے بناۓ گۓ ذہنی سانچے میں ڈھل ہی نہیں سکتا۔ ہم کسی کو اپنی مرضی سے چلنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے فیصلے زبردستی کسی پر مسلط نہیں کر سکتے۔ جب یہ فطری سی بات ہے تو ہم یہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتے؟ دوسروں پر زبردستی اپنا حکم چلانے کی بجاۓ ہمیں ایک مرتبہ ان کی بھی سن لینی چاہیے۔

کیا پتا ان کے پاس ہم سے بہتر راۓ موجود ہو اور ہم اپنی برتری کے زعم میں ان کو کوئی اہمیت نا دے رہے ہوں۔ اداروں میں پیشہ ورانہ رویہ کیوں ضروری ہونا چاہیے؟ اس کی وضاحت ایک مثال سے کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ غیر پیشہ ورانہ رویوں کا مظاہرہ کرتے ہوۓ یہ بھی خیال نہیں رکھتے کہ ہمارے منہ سے نکلنے والے الفاظ دوسرے لوگوں کے کام اور ان کے رویوں پر کیسے اثر انداز ہو رہے ہیں؟ اگر بطور نگران عملہ یا ماتحت عملے کے ہم اپنے جونیئرز پر خفا ہوتے ہیں تو وہ جونیئر گھر واپس جاتے ہوۓ لازمی طور پر چوکیدار یا گیٹ کیپر پر خفا ہو گا۔

گیٹ کیپر جب دوسروں کے رویوں سے نالاں گھر پہنچے گا تو وہ اپنی بیوی پر خفا ہو گا، گھر میں انتشار کی کیفیت دیکھ کر بچوں کے رویوں میں بھی لچک ختم ہو جاۓ گی، ذہنی تناؤ کا شکار بچے اپنے محلہ، سکول یا سوسائٹی کے بچوں کے ساتھ برے رویوں کا مظاہرہ کریں گے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے غیر پیشہ ورانہ رویوں سے معاشرے میں وہ بگاڑ پیدا ہو گا جس کی اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

آپ اپنی عملی زندگی میں جہاں کہیں بھی ہوں یا جس بھی عہدے پر ہوں، اپنے رویوں میں لچک پیدا کیجیے۔ پیشہ ورانہ رویہ اختیار کیجیے۔آپ کے رویوں میں لچک پیدا ہو گی تو آپ کا ماتحت عملہ آپ کی دل سے عزت کرے گا اور آپ حسنِ اخلاق کا جو بیج بوئیں گے، اس کے اثرات آپ کو خود بخود اپنی زندگی میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اگر آپ کا کوئی ورکر کسی وجہ سے تاخیر سے آفس پہنچا ہے تو اسے کاہلی و سستی کا طعنہ دینے کی بجاۓ معاملے کی اصل نوعیت جاننے کی کوشش کیجیے۔

کیا خبر اس کے والدین ہسپتال میں ہوں، کیا پتا اس کے بچے بیمار ہوں، کیا پتا اس کی خود کی طبیعت ٹھیک نا ہو، حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوۓ کبھی کبھار اپنی مرضی سے بھی اپنے ورکرز کو چھٹی دے دیجیے۔آنے والے دنوں میں یہی ورکرز آپ کے لیے ڈھال بن کر کھڑے ہوں گے۔ اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اپنے رویوں میں لچک پیدا کیجیے۔

نرمی، محبت اور احترام کا رویہ اپنائیے، یہ سب آپ کو دوگنا ہو کر واپس ملے گا۔تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیجیے، دنیا میں جتنے بھی حکمران گزرے ہیں، اگر آج ان کا نام کسی نا کسی وجہ سے زندہ ہے تو صرف اپنی نرم دلی، مہربان طبیعت اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے سے ہے۔ پیشہ ورانہ ادارے پیشہ ورانہ تربیت ضرور سکھاتے ہیں لیکن پیشہ ورانہ رویہ نہیں سکھا پاتے۔

نتیجتاً ایسے لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بھی جہنم بنا دیتے ہیں۔ کسی کم ظرف کو کبھی اختیار نہیں ملنا چاہیے ورنہ وہ ہزاروں وسیع القلب و وسیع الظرف لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرے گا۔ ہر عہدے کے لیے، ہر لیول کے لیے الگ الگ آزمائشیں تیار کی گئی ہیں جن سے گزر کر ایک انسان کوئی بھی عہدہ حاصل کر سکتا ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی امتحان یا ایسی کوئی آزمائش سامنے نہیں آئی جو انسان کے ہیشہ ورانہ رویہ کو بھی جانچ سکے۔
حکومتی سطح پر بھی کسی نا کسی ایسے ادارے کے قیام کی اشد ضرورت ہے جہاں پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ رویہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :