"قرآن کی قسم کھانا یا قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانا"

ہفتہ 8 مئی 2021

Safia Haroon

صفیہ ہارون

آپ نے  نوٹ کیا ہو گا کہ ہم میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے، جن کے عقائد کمزور ہیں۔ ایسے کمزور عقائد والے لوگ جہاں اپنے لیے غیر یقینی صورتِ حال پیدا کرتے ہیں، وہیں دوسروں کے لیے بھی وبالِ جان بنے رہتے ہیں اور دوسروں کے پختہ عقائد کو بھی متزلزل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی کہی گئی بات کو ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔

کبھی اپنی قسمیں کھائیں گے، کبھی اپنے پیاروں کی تو کبھی اپنی اولاد کے سر کی قسم کھائیں گے۔ ایسے لوگ ہر مذہب، ہر فرقے میں موجود ہوتے ہیں۔بعض دفعہ تو ایسے لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مقدس کتاب قرآنِ مجید کی قسم کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بس یہیں وہ سب سے بڑی غلطی کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

قرآنِ پاک اللہ رب العزت کی طرف سے نازل کی گئی مقدس کتاب ہے۔

یوں بار بار قرآن پر ہاتھ رکھ کر قرآن کی قسمیں کھانا  کسی صورت درست نہیں ہے۔اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو اَفَلَا یَتَدَبَّرُون کا پیغام دے کر مسلمانوں کو غورو فکر کی دعوت دی ہے۔ پھر ہم انسان غور و فکر کرنے کی بجائے غلط رسوم میں کیوں الجھے ہوئے ہیں؟
قرآنِ پاک کی رو سے فیصلہ کرنے اور قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کرنے میں بہت فرق ہے۔

اگر قرآنِ پاک کھول کر، اس کے احکامات دیکھ کر فیصلہ کیا جائے تو کبھی بھی قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ اکثر لوگ اپنی سچائی ثابت کرنے یا خود کو بےگناہ ثابت کرنے کے چکر میں قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر یا قرآنِ پاک سر پر رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ قسم کسی کام کے انکار کے لیے کھائی جاتی ہے۔اپنے دعووں کو سچا ثابت کرنے کے لیے قسم نہیں کھائی جاتی۔

مثال کے طور پر دو آدمی اگر زمین کے کسی ٹکڑے کے لیے جھگڑ رہے ہیں  تو ان میں سے وہ قسم نہیں کھائے گا، جو سچا ہے، کیوں کہ سچے شخص کے پاس کوئی نہ کوئی ثبوت ضرور ہو گا  بلکہ وہ شخص قسم کھائے گا جو جھوٹا دعویٰ کر رہا ہے۔وہ قسم کھائے گا کہ اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔کسی کا ناحق کوئی مال نہیں کھایا۔ کسی کی زمین جائیداد پر قبضہ نہیں جمایا۔

اس سے  یہ بات ثابت ہوتی کہ مدعی ثبوت پیش کرتا ہے، اگر اس کے جواب میں  مدعی علیہ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو وہ اپنی صفائی کے لیے قسم یا حلف دیتا ہے۔قسم کی مختلف صورتیں ہیں۔ قسم قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر کھائی جائے یا بغیر قرآنِ پاک اٹھائے کھائی جائے، قسم یکساں ہی رہے گی۔ جو لوگ قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر یا قرآنِ پاک کو سر پر رکھ کر یا سینے سے لگا کر قسم کھاتے ہیں، دراصل وہ مقدس کتاب کو درمیان میں لا کر اپنی قسم کی اہمیت کو ثابت کرتے ہیں۔

کوئی بھی شخص چاہے وہ زبانی قرآن کی قسم کھائے یا قرآنِ پاک ہاتھ میں پکڑ کر قسم کھائے، اس کی قسم برابر ہے کہ اس نے قرآن کی قسم کھائی۔ قرآنِ پاک کی جھوٹی قسم کھانا گناہِ عظیم ہے۔ قرآنِ پاک سچی کتاب ہے، اس کی جھوٹی قسم کھانا قسم کھانے والے کے لیے بہت سے مسائل لے کرآتی ہے۔ ایسا شخص دنیا میں تو اپنی عزت و تکریم کھوتا ہی ہے، ساتھ ہی اپنی آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ عدالت میں جب گواہان اور مجرموں کو کٹہرے میں لایا جاتا ہے تو ان کے بیان دینے سے پہلے ان کے سر پر قرآنِ پاک کا سایہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ مقدس کتاب کو مقدم مانتے ہوئے جو بھی کہیں، سچ کہیں۔  یہ بھی حقیقت ہے کہ قسم کھانے والا قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھنے کے ساتھ ساتھ جب تک  اپنی زبان سے قسم کا اقرار نہیں کر لیتا، تب تک قسم واقع نہیں ہو گی۔

اس کے بعد اگر وہ قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر ، زبان سے اقرار کرتےہوئے قسم کھائے  کہ میں قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آئندہ  یہ کام نہیں کروں گا تو اس کی قسم واجب ہو گئی۔ اس کے بعد اگر وہ دوبارہ وہی کام کرے تو اسے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا ہو گا۔ ایسے لوگ قرآن کے بھی مجرم بنتے ہیں اور قرآن اپنے مجرموں کو معاف نہیں کرتا۔قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے  کہ قسم توڑنے والااگر مالی استطاعت رکھتا ہے تو دس غریب لوگوں کو کپڑے لے کر دے یا دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے۔

اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو ایک ہی مسکین کو دس دن تک دو وقت کا کھانا کھلائے یا دس دن تک ہر روز اسےصدقہ فطر کی رقم دیتا رہے ۔اگر یہ بھی نہ کر سکتا ہو تو تیسری صورت یہ ہے کہ قسم توڑنے والا تین دن تک روزے رکھے تاکہ قسم توڑنے کا کفارہ ادا ہو سکے۔بہتر یہی ہے کہ جب بھی ایسی کوئی صورتِ حال درپیش ہو، جس میں نوبت یہاں تک آ پہنچے کہ قرآن پاک کی قسم کھائی جائے تو ایسی صورتِ حال میں ہمیشہ قرآنِ پاک سے دیکھ کر فیصلہ کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :