چین کا انقلابی قدم

منگل 23 مارچ 2021

Samantha Arthur

سمینتا آرتھر

آپ نے نپولین بونا پارٹ کا یہ مشہور قول سن رکھا ہو گا کہ "نا ممکن کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں". جی ہاں ہمت کرنے والوں کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا. اسی احوال کو اب ہم ایک انقلابی قدم کی نظر سے دیکھتے ہیں. حالیہ دنوں میں آپ نے کرونا وائرس کے بارے بہت مرتبہ سنا ہوگا جو کہ چائنہ کے شہر ووہان سے شناخت میں آیا. جو کہ اب تک مختلف ممالک میں پھیل چکا ہے.

چونکہ ووہان اس وائرس کا مرکز ہے تو لحاظہ سب سے زیادہ نقصان بھی یہاں ہوا ہے اور حالیہ تاریخ تک 1360 افراد سے زیادہ اب تک اس میں لقمہ آجل بن گئے ہیں اور 60000 تک اس سے متاثر ہوئے ہیں. اس ساری صورتحال میں چائنہ نے جو حکمت عملی سے کام لیا ہے وہ تعریف کے قابل ہے.

(جاری ہے)

اور اس اقدام نے مغرب سمیت سب ممالک کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے. ایک ایسے وقت میں دو نئے اسپتالوں کا اعلان اور تعمیر کرنا جو سمجھ سے بالاتر تھا.

یہ اس طرح ہوا کے پہلا 10 دن میں اور دوسرا 12 دن میں بنایا گیا. انھوں نے وبا کے متاثرین کے لئے سخت ضرورت سے زیادہ نئے بستر فراہم کرنا تھے. انھوں نے ہووشنشاں میں 1000 اور لیشانشاں میں 1600 یعنی کل ملا کے یہ بنتے ہیں 3600 بستر اور ان دونوں اسپتالوں کے مابین محض 25 میل کا فاصلہ بنتا  ہے.  انجیرنگ کمپنی این ٹی ایکس کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ ہارٹلی کے مطابق تیار شدہ مصنوعی تعمیراتی یونٹوں کا استعمال عمارت کی تیز رفتار تعمیر کا سبب بنا.

چینی سرکاری میڈیا کے مطابق 7500 سے زائد مزدوروں نے چوبیس گھنٹے کام کیا جو کے واقعی قابل تقلید ہے. ایک مزدور نے بتایا کے کہ ہم یہاں نو دن سے کام کر رہے ہیں اس دوران تین دن میں صرف دو گھنٹے سوئے ہیں. ایک اور کارکن نے کہا کہ جب تباہی پھیلتی ہے تو ہر طرف سے مدد ملتی ہے. میں ووہان کا رہائشی ہوں، میرا فرض ہے کہ میں اپنے آبائی شہر کا تحفظ کروں.

عالمی صحت سے متعلق تسلیم شدہ ماہر رابرٹ یٹس نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اسپتال جس تیزی سے بنائے گئے ہیں، اس کی رفتار بہت سے لوگوں کے لئے سبق ہے. بالکل یہ خود میں محنت اور مستقل مزاجی کی منفرد مثال بن گیا ہے. گویا واقعی یہ سب کے لئے سبق ہے. اور چونکہ پاکستان اور چین گہری دوستی میں منسلک ہیں. اور چونکہ جیسے ہم ایک دوست کی اچھی عادت کو آپناتے ہیں بحیثیت پاکستانی ہمیں چین کی محنت اور مستقل مزاجی کی عادت کو آپنانا چاہیے.

کیونکہ ہمارے ہاں تو جو بھی منصوبہ تشکیل دیا جاتا آخر میں اس کی رقم کا تخمینہ ہی غلط لگایا جاتا ہے یا تو وہ خود غلط طریقے سے تشکیل دیا جاتا ہے. جس کا نتیجہ ہم نے پشاور بی آر ٹی کی شکل میں دیکھا جو کے اس انتظار میں ہے کے کوئی ارباب اختیار اس کا فیتا کاٹے. پر اس میں تو ابھی دیر ہے. لیکن یہاں تو جو منصوبے بن بھی گئے ہیں وہ بھی کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ حسن کو تار تار کر دیتے جیسے کے لاہور میں المعروف جنگلا بس اور اورینج ٹرین جو کہ اب درد سر بن گئے ہیں.

یہ منصوبے تب اچھے لگتے جب عام آدمی کو تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولتوں تک رسائی ہو. لیکن یہ منصوبے کچھ عناصر کو بہت فائدے بھی پہنچاتے ہیں. اور یہی منصوبے ہماری حکومتی سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں. عمران خان جو کہ ہمیشہ کرپشن کے حوالے سے چین کی مثال دیتے ہیں، ان کو چاہیے کے اگر وہ بھی اپنی زندگی میں(ﷲ لمبی عمر عطا فرمائے آمین) 50 لاکھ گھروں کا منصوبہ پورا کرنا چاہتے ہیں تو چین کے اسی انقلابی قدم کو دیکھتے ہوئے چین کی خدمات حاصل کریں. شاید یہی صفت ہی چین کی ترقی یافتہ ہونے کی عکاس ہے. شاعر نے ساری بحث کو ایک کوزے میں سمیٹ دیا ہے؛ بقولِ شاعر
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :